تمام تر رکاوٹوں، حملے اور مخالفت کے باوجود عورت آزادی مارچ کی تحریک جاری رہے گی، مارچ منتظمین نے حکومت سے ان پر ہونے والے حملے کے خلاف آزادانہ عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا.
عورت آزادی مارچ کے منتظمین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عورت آزادی مارچ پر ہونے والے حملے کی آزادانہ جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ مارچ پر حملہ ہمارے سماج میں عورتوں کے اظہار پر عدم برداشت کی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حملے میں تشدد کا عنصر نمایاں تھا جس کا بنیادی مقصد پدرشاہی تشدد کا دفاع کرنا تھا اور عورتوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے سے روکنا تھا۔ اس قسم کے حربوں سے عورتوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔ اس جدوجہد کے خلاف کسی بھی کوشش کا سختی سے مقابلہ کیا جائے گا۔
اس موقع پر انسانی حقوق کی علمبردار ڈاکٹر فرزانہ باری صاحبہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس تشدد کی ذمہ دار اس شہر کی انتظامیہ ہے جس نے اسی جگہ اور وقت پر مخالف جماعتوں کو بھی مارچ کی اجازت دی جب کہ ہم نے اس مارچ کی اجازت اسی انتظامیہ سے قبل از وقت حاصل کر لی تھی۔ اگرچہ یہ اجازت نامہ بھی کافی تاخیر سے جاری کیا گیا۔ جس کی وجہ مذہبی پارٹیوں کا دباؤ اور ہماری مارچ کو ناکام کرانا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حیا مارچ کو اس جگہ اور اسی وقت مارچ کی اجازت دینا غلط فیصلہ تھا کیونکہ ہمیں ان کی طرف سے مسلسل دھمکیاں آ رہی تھیں۔ حیا مارچ کے شرکا کو کس طرح پتھر، ڈنڈے اور چلی پاؤڈر پریس کلب پر لانے کی اجازت دی گئی۔
طوبی سید سیکرٹری اطلاعات ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اور عورت آزادی مارچ آرگنائزر نے کہا کے ہماری مارچ نہایت پرسکون تھی جس پر حیا مارچ کے شرکا کا حملہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھا۔ ہمارے بہت سے شرکا زخمی بھی ہوئے۔ حیا مارچ گروپ کھلے طور پر نفرت آمیز بیانات کے ذریعے تشدد کو ہوا دے رہا تھا اور آزادی مارچ کے خاتمے پر بضد تھا۔
انہوں نے اس موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کے کام اور حوصلہ مندی کی تعریف بھی کی جنہوں نے عورت آزادی مارچ کا دفاع کیا لیکن کہا کہ پولیس اس طرح کے حملے کے لیے ہر گز تیار نہ تھے چونکہ حیا مارچ کے منتظمین نے وعدہ خلافی کی اور تین بجے اپنی مارچ کو نہ صرف ختم نہیں کیا بلکہ ہم پر حملے کے لیے دوبارہ جمع ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حیا مارچ کے شرکا نے ان کو بھی براہ راست غلیظ گالیاں دی اور دور سے فحش اشارے بھی کیے۔ اس کے باوجود ہم نے اپنے شرکا کو جوابی کارروائی سے منع کیا تا کہ مزید کشیدگی سے بچا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مارچ سے اگلے دن عمار رشید جو کہ منتظمین میں شامل تھے، کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا اور اس کا آگے کا شیشہ بھی توڑ دیا گیا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ابھی تک تشدد کا خطرہ ٹلا نہیں۔
آخر میں عورت آزادی مارچ کی آرگنائزر عنم راٹھور نے کہا کہ مارچ کے مخالف عناصر پاکستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کی حقیقت سے انکاری نظر آتے ہیں، جبکہ پاکستان دنیا بھر میں عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے حوالے سے سب سے نچلے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 90 فیصد عورتوں کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ 1000 سے زائد خواتین کا غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے، جس کے لیے سزائیں نا ہونے کے برابر ملتی ہیں۔ سڑکوں پر جنسی ہراسانی کی وجہ سے لاتعداد خواتین عوامی شاہراوں تک رسائی اور روزگار سے محروم رہ جاتی ہیں۔
یہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ اس ملک میں عورت آزادی مارچ کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری تحریک مردوں کے خلاف نہیں یہ بلکہ اس سرمایہ دارانہ اور پدرشہانہ جبر کے نظام کے خلاف ہے جس میں عورت اور مرد دونوں کا استحصال ہوتا ہے۔