’چلو ایک پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘ لاہور میں جشن ساحر لدھیانوی

’چلو ایک پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘ لاہور میں جشن ساحر لدھیانوی
1947 کے بعد جن عظیم فنکاروں اور ادبیوں نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا ان استاد بڑے غلام علی خان قرہ العین حیدر ساحر لدھیانوی اور سعادت حسن منٹو شامل تھے چاروں میں سوائے منٹو صاحب کے باقی تینوں واپس لوٹ گئے،اور آسودہ حال ہو گئے منٹو صاحب پاکستان میں شراب کی بوتل میں ڈوب کر مر ہوگئے اور ناشرین انکی کتابیں شائع کر کے لاکھ پتی ہو گئے ، راقم الحروف کی حمید اختر مرحوم سے بہت زیادہ ملاقاتیں رہی ہیں وہ ساحر لدھیانوی کے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ساحر لدھیانوی کے لنگوٹیا تھے وہ ساحر کے حوالے سے بہت دلچسپ باتیں بتاتے تھے انہوں نے اپنی کتاب، آشنائیاں کیا کیاْ

میں ساحر پر ایک خاکہ بھی لکھا ہے وہ کہتے کہ ساحر کو محبتں کرنے کا شوق تھا مگر نبھائے کا حوصلہ نہیں تھا جب ہم ممبئی میں تھے تو لوکل ٹرین میں اکھٹے سفر کیا کرتے تھے تو وہ اکثر اس سیٹ پر بیٹھنا پسند کرتا تھا جہاں آگے لڑکیاں بیٹھی ہوتی تھیں، میں اکثر اس سے پوچھا کرتا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو وہ کہتا یہ جو مراٹھی لڑکیاں بالوں میں گجرا لگاتی ہیں مجھے ان پھولوں کی خوشبو بہت بھاتی ہے اس لیے میں انکے پیچھے والی نشیت پر بیٹھتا ہوں ، میں نے حمید اختر مرحوم سے پوچھا کہ ساحر واپس بھارت کیوں چلا گیا۔وہ ایک سانس لیے کر خاموش ہو گئے کہتے، اس وقت تو میں نے اسکے جواب کو سنجیدگی سے نہیں لیا مگر اب احساس ہوتا ہے کہ وہ دیوانہ شاعر ٹھیک کہتا تھا۔

اسکی سیاسی بصیرت ہم سے زیادہ بہتر تھی جاتے ہوئے ساحر نے مجھے کہا حمید اختر میں واپس بھارت لوٹ رہا پاکستان میں فنکاروں کی زندگی بہت مشکل ہو جائے گی مجھے لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں بنیاد پرستی اور انہتا پسندی کو فروغ حاصل ہو گا اور ملا اور جاگیردار گٹھ جوڑ بن جائے گا میرے جیسے فنکار کا یہاں دم گھٹ جائے گا۔

آج ساحر لدھیانوی کی کی ہوی بات حرف با حرف سچ ثابت ہو رہی ہے معاشرے میں بڑھتی ہوئی تنگ نظری عروج پر پہنچ چکی ہے ،ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے نقاد نے ساحر کو فلمی گیت نگار قرار دے کر مسترد کر دیا جبکہ سرکاری سطح پر وہ ایک ہندوستانی شاعر کہلایا گیا، آج تک کبھی ریاستی سطح پر اس عظیم شاعر کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔

مگر اب صورتحال میں تبدیلی آئی ہے پہلی ایک سرکاری ادارے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اردو کی صدر نشین ڈاکٹر صائمہ ارم اور انکے ساتھیوں نے یہ جرات مندانہ اقدام کیا کہ کالج میں جشن ساحر لدھیانوی کا انعقاد کیا اس جشن کی سب سے خاص بھارت سے نامور شاعر گیت نگار اور سکرپٹ رائٹر جاوید اختر کی آن لائن شرکت دو گھنٹے تک ساحر لدھیانوی کی باتیں کرتے رہے ،ڈاکٹر صائمہ ارم کی دوہری کامیابی ہے ایک تو انہوں نے پہلی بار کسی سرکاری کالج جشن ساحر لدھیانوی کا انعقاد کیا اور دوسرا بھارت سے جاوید اختر کو بھی آن لائن شریک کر لیا۔

یہ بہت جرآت مندانہ اور قابلِ تعریف قدم ہے ، حکومت پاکستان نے کرتار پور راہداری منصوبے پر عمل درآمد کرکے ایک ماسٹر سڑوک کھیلا ہے ایک راہداری دونوں ممالک کے درمیان شاعروں ادیبوں فنکاروں اور کھلاڑیوں کی بھی بنائی چاہیے تاکہ جامد سماج میں کوئی حرکت ہو سکے ،اس شدت پسندی کے زہریلے دور ساحر لدھیانوی جسے شاعر تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو سکتے ہیں بدقسمتی سے ہم اپنی جامعات کو ڈگریاں جاری کرنے کی ملیں اور فیکٹریاں بنا رہے۔

وہاں انسان سازی نہیں ہو رہی وہاں فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے کچھ نہیں ہو رہا، وہاں کیا ہو رہا ہے لڑکا اور لڑکی ایک جگہ نہیں بیٹھیں گے لڑکے گھنٹے سے پھٹی جینز کی پینٹ نہیں پہن سکتے لڑکیوں کو جیز پہنے کی اجازت نہیں پتہ نہیں کیوں ہم ایک جدید دور میں پوری دنیا سمٹ کر آپکے موبائل فون میں آگئی ہے آپ اس طرح کی بچگانہ پاپندی کیوں لگا رہے ہیں۔

ایسے میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں جشن ساحر لدھیانوی کا انعقاد ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا طالبات اور طالب علموں نے وائس چانسلر صاحب کے ساتھ بیٹھ کر سارا پروگرام دیکھا جو بہت مثبت اور صحت مند طرز عمل تھا خدا کرے ہمارے باقی تعلیمی ادارے بھی اس روش کو اپنانے میں پیش قدمی کریں۔  اپنے سماج کو گھٹن جبر اور شدت پسندی کو بچانے کا طریقہ بس یہ ہے اور کوئی نہیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔