سری لنکا میں کرونا وائرس کے دوران مسلمانوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے اور انہیں اسلامی عقائد کے مطابق مُردوں کی تدفین بھی نہیں کرنے دی جا رہی۔ کرونا وائرس کی آڑ میں تضحیک آمیز رویہ اپنانے پر مسلمانوں نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے یکساں رویے اور انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان نیوز سے حاصل معلومات کے مطابق سری لنکن دارالحکومت کولمبو میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جب حکومت نے مسلمان خاتون کو کرونا وائرس کا مریض قرار دے کر لاش جلا دی۔ بعدازاں مسلمان خاتون کی کرونا وائرس رپورٹ منفی آ گئی، جس پر ان کے اہلخانہ نے حکام سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔
زبیر فاطمہ رنوسا کو کرونا وائرس کا مریض قرار دیا گیا تھا اور سری لنکن قانون کے تحت وائرس کا متاثرہ مریض ہونے کے سبب ان کی لاش کو جلا دیا گیا، البتہ ان کی آخری رسومات کے دو دن بعد آنے والی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ مرحومہ وائرس کا شکار نہیں تھیں۔
فاطمہ رنوسا کے چار بیٹوں میں سے ایک محمد ساجد نے بتایا کہ ان کی والدہ کی لاش کو تدفین کے اسلامی طریقہ کار کے برخلاف 5 مئی کو جلا دیا گیا تھا اور ان کے بھائی نے حکومت کے اصرار پر اس عمل کے لیے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے فارم پر دستخط بھی کیے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ 7 مئی کو ہمیں میڈیا ریلیز سے پتا چلا کہ میری والدہ کے ٹیسٹ کے نتائج میں غلطی ہوئی تھی اور ان کا انتقال کرونا وائرس کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔
واضح رہے کہ سری لنکا میں اب تک کرونا وائرس سے کُل 9 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 3 مسلمان ہیں اور اسلامی اقدار اور طریقہ کار کے برخلاف ان تمام افراد کی لاشوں کو جلا دیا گیا ہے۔
بدھ مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت کے حامل ملک سری لنکا میں ابتدائی طور پر حکام نے مسلمانوں کی تدفین پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن 11 اپریل کو قانون میں ترمیم کرتے ہوئے کرونا سے متاثر ہو کر مرنے والے تمام مذاہب کے افراد کی لاش کو جلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
سری لنکن پارلیمنٹ کے سابق مسلمان رکن علی ظہیر مولانا نے کہا کہ مسلمان خاندان انتہائی افسردہ ہیں کیونکہ وہ ناصرف اپنے پیاروں سے محروم ہو گئے بلکہ انہیں تدفین کے بنیادی اسلامی حق سے بھی محروم کردیا گیا جبکہ حکام نے ان سے انتہائی برا رویہ بھی اختیار کیا۔
ادھر سری لنکا میں مسلمان علما کی سب سے بڑی پارٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام مسلمان اس معاملے پر متحد ہیں اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی روشنی میں کرونا وائرس کا شکار ہو کر مرنے والے مسلمانوں کی بھی تدفین کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ ہمارے ایمان اور مذہبی عقائد کا اہم حصہ ہے۔
دوسری جانب سری لنکن صدر گوٹبیا راجا پکسے کے وکیل علی صابری نے کہا کہ حکومت نے عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے تدفین پر پابندی لگائی ہے۔ اگر فیصلہ کرنے والوں نے سائنسی اور طبی بنیادوں پر تمام حقائق اور پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر کوئی فیصلہ کیا ہے تو ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں اور سب کو اس کی تابعداری کرنی چاہیے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی سری لنکا میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے کہہ چکی ہیں کہ سری لنکا میں مسلمانوں کو ہتک آمیز رویے کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔