متنازعہ قانون کے تحت کرونا کا شکار 19 دنوں کے مسلمان بچے کی لاش کو جلانے پر سری لنکا میں سیاسی ہلچل

متنازعہ قانون کے تحت کرونا کا شکار 19 دنوں کے مسلمان بچے کی لاش کو جلانے پر سری لنکا میں سیاسی ہلچل

سری لنکا میں سرکاری حکام کی جانب سے ایک مسلمان نومولود بچے کی موت کے چند دن بعد  تدفین کی بجائے اس کی لاش کو جلا دینے پر کرونا سے متاثرہ افراد کی لاشوں کو جلانے کے لئے پابند کرنے والے  ملک کے متنازع کرونا قانون پر سیاسی بے چینی پائی جا رہی ہے اور اسکی عوامی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔





حکومت کے ناقدین کہتے ہیں کہ کرونا سے متاثرہ مریض کو جلائے جانے کا یہ فیصلہ سائنسی بنیادوں پر نہیں لیا گیا ہے بلکہ اس سے مسلمان اقلیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔





محمد فہیم اور ان کی اہلیہ فاطمہ بے انتہا خوش تھے جب  چھ سال کے انتظار کے بعد 18 نومبر کو  ان کے ہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی۔ لیکن ان کی خوشی کچھ ہی دنوں میں کرب ناک اذیت میں تبدیل ہوئی۔





سات دسمبر کو  ان کے بچے کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا جس پر وہ اسے سری لنکا کے دارالحکومت کولومبو میں بچوں کے ہسپتال، لیڈی رج وے لے گئے۔




بچے کے والد محمد فہیم نے بتایا کہ ہسپتال حکام نے  پہلے بچے کی حالت بہت نازک  بتائی  اور اسے نمونیا تشخیص کیا۔ پھر رات گئے  کیئے گئے ٹسیٹوں کو بنیاد بنا کر انکے بچے کو کورونا وائرس  سے متاثرہ مریض قرار دیا۔





 وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں نے انکا اور ان کی اہلیہ کا بھی ٹیسٹ کیا لیکن وہ منفی آیا۔ تاہم  دونوں ماں باپ کی اپیل کے باوجود ہسپتال حکام نے انھیں گھر بھیج دیا اور بذریعہ فون انہیں رابطہ کرنے کی ہدایت کی ۔ اگلے دن انھیں اطلاع دی گئی کہ بچے کی موت واقع ہو گئی ہے۔





محمد فہیم نے بارہا ہسپتال حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ پی سی آر ٹیسٹ کی مدد سے  تصدیق کریں کہ آیا انکا متوفی بچہ کرونا وائرس کا شکار تھا یا کہ نہیں۔  ت انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔





اس کے بعد ہسپتال کے ڈاکٹرز نے ان سے ایک دستاویز پر دستخط کرنے کو کہا جس میں سری لنکا کے قوانین کے تحت کرونا  سے متاثرہ افراد کی لاش کو جلایا جاتا ہے اور اس کے مطابق ان کے بچے کی لاش بھی جلائی جانی تھی۔ لیکن  شرعی احکامات کو مد نظر رکھتے  ہوئے بچے کے والد نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔


تاہم انکے بچے کی میت کو والدین کی خواہش کے خلاف زبردستی جلا کر تلف کردیا گیا اور متضاد خبروں کے مطابق اسکی راکھ بھی والدین کے حوالے نہیں کی گئی۔


اس معاملے کے منظر عام پر آنے کے بعد  سری لنکا میں سیاسی سطح پر معاملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور اس سے بڑے پیمانے پر خاندان جڑ رہے ہیں جو سری لنکن حکومت کے اس قانون کو بے بنیاد، ظالمانہ اور حقائق کے منافی سمجھتے ہیں۔ 




 بی بی سی نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی لاش نہ جلانے کی اپیل پر زیادہ لوگوں نے پہلے پہل زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن فہیم کے بیٹے کی موت کے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔





اس خبر کے سامنے آنے کے بعد دیگر مذاہب کے افراد اور حزب اختلاف کی جماعتیں لاش جلانے کے مرکز کے باہر جمع ہوئیں اور کئی لوگوں نے سفید ربن اس کے دروازے سے باندھے۔ جمع ہونے والوں میں بڑی تعداد کا تعلق سنہالا برادری سے تھا۔





سوشل میڈیا پر بھی لوگ اس واقعے کی مذمت کر رہے ہیں۔  یاد رہے سری لنکن عدالت عظمیٰ مسلمان تنظیموں کا اس حوالے سے کیس سنے بغیر رد کر چکی ہے۔


لاش جلانے کے بارے میں حکومت کا موقف ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کی لاش دفنانے کی صورت میں زیر زمین پانی میں وائرس مل جانے کا خدشہ ہے۔ حکومت نے یہ موقف ایک 'ایکسپرٹ کمیٹی' کی تجاویز کی روشنی میں اختیار کیا ہے لیکن اس کمیٹی کے ممبران اور ان کی قابلیت کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔ تاہم اسے آزاد تکنیکی اور طبی ذرائع نہیں مانتے اور ایک غلط فہمی پر قائم مفروضہ قرار دیتے ہیں۔