پاکستان اور افغانستان میں دہشتگردی کی نئی لہر، آرمی چیف کا دورہ کابل کیا پیغام دیتا ہے؟

پاکستان اور افغانستان میں دہشتگردی کی نئی لہر، آرمی چیف کا دورہ کابل کیا پیغام دیتا ہے؟
پاکستانی آری چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے برطانوی چیف آف ڈیفنس جنرل نکولس پیٹرک کارٹر اور ڈی جی آئی ایس ائی لیفٹنٹ جنرل فیض حمید کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا ، جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سمیت افغان مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی ۔ آرمی چیف کا دورہ کابل ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد بارڈر کے دونوں طرف حالات کشیدہ ہیں اور افغانستان میں سویلین اور پاکستان میں سیکیورٹی فورسز کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں کابل میں ایک سکول کے سامنے دھماکے اور جاں بحق ہونے والے طالب علموں کے بعد افغانستان کے لوگوں میں ایک غصہ پایا جارہا ہے اور ایک بار پھر سوشل میڈیا صارفین نے کابل دھماکے کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا ۔اس حملے کے بعد نہ صرف تحریک طالبان افغانستان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ ا س کے ساتھ تین دن سیز فائز کا اعلان بھی کردیا۔

کچھ روز پہلے افغان صدر اشرف غنی نے بین القوامی جریدے فارن افئیرز کے لئے لکھے گئے ایک مضمون میں ایک بار پھر طالبان کو پاکستان کے سہولت کار کے خطاب سے نوازہ اور کہا کہ اگر وہ مزاکرات کی میز پر آئینگے تو ہم مزاکرات کرینگے لیکن اگر وہ لڑینگے تو ہم لڑ نے کے لئے تیار ہیں۔ افغان صدر کی جانب سے پاکستان پر لگائے گئے الزامات اور افغانستان میں امن و امان کی بڑھتی ہوئی صورتحال پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ کابل کتنی اہمیت رکھا ہے ؟

افغانستان میں مقیم سینئر صحافی اور تجزیہ کار سمیع یوسفزئی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ جیسے جیسے ہی غیر ملکی افواج کے انخلاء کا وقت قریب آتا جائے گا تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوگا کیونکہ افغانستان یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان نے اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ کھڑے ہیں یا پھر افغانستان کے ساتھ تو اس لئے یہ دورہ اس وقت ایک انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن ان دوروں سے دونوں ملکوں کے درمیان تبدیلی اور اعتماد کی فضا تب بحال ہوگی جب دونوں ممالک کوئی عملی اقدام اُٹھائینگے لیکن بظاہر ایسا دکھائی نہیں دے رہا ۔

افغان امور پر نظر رکھنے والے اسلام آباد میں مقیم سینئر صحافی طاہر خان سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کا دورہ امن عمل کا حصہ ہے لیکن اس میں برطانوی آرمی چیف کا بھی ایک کردار ہے اور وہ ان کوششوں میں لگے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن کی فضا برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر اعتماد بھی بڑھ جائے اور اس سلسلے میں کوششیں جاری ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ برطانوی آرمی چیف کے کردار کا یہ پہلا عمل نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے بھی بحرین میں پاکستان اور افغانستان کے آرمی چیف کے درمیان برطانوی آرمی چیف کے درمیان ایک ملاقات ہوئی تھی جہاں دونوں ممالک کے اینٹیلیجنس چیف بھی موجود تھے ۔ طاہر خان کے مطابق بظاہر تو برطانوی آرمی چیف کا اس عمل میں کوئی کردار نہیں اور نہ تینوں ممالک کا کوئی معاہدہ موجود ہے مگر یہ سب اعتماد کی فضا بحال کرنے کی ایک کوشش ہے کیونکہ یہ مذاکراتی عمل برطانوی آرمی چیف کی موجودگی میں ہورہے ہیں کیونکہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے بالواسطہ مزاکرات کے کوئی تنائج سامنے نہیں آئے اور نہ اعتماد کی فضا بحال ہوئی ۔ طاہر خان کے مطابق جب تک افغانستان میں جنگ رہیگی تب تک کشیدگی جاری رہیگی ۔

صحافی اور تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کے مطابق افغانستان کی جانب سے مستقبل میں بھی ایک بڑی مزاحمت سامنے آئے گی کیونکہ طالبان اب بہت زیادہ ایکسپوز ہوئے کیونکہ جب بھی مذاکراتی عمل کا دورانیہ ختم ہوتا ہے تو قطری اہلکار قطر چلے جاتے ہیں، امریکہ کے اہلکار امریکہ لیکن افغانستان کے طالبان پاکستان کا رُخ کرتے ہیں جس پر افغانستان کی حکومت اور عوام دونوں کو تشویش ہے کیونکہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہی موقف راہ ہے کہ اُن کا طالبان پر کوئی کنٹرول نہیں لیکن افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرتی عمل میں طالبان کی جانب سے سست روی پر افغانستان کو تحفظات ہیں ۔ سمیع یوسفزئی کہتے ہیں پاکستان نے طالبان کے حوالے سے ایک تاثر دیا کہ ہم افغانستان میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر طالبان کو میز پر بیٹھا رہے ہیں لیکن اب وہ سست روی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اس کا دباؤ پاکستان پر بھی آرہا ہے اور اس کا اظہار آج زلمے خلیل زاد نے بھی اپنے انٹرویو میں کیا ہے۔ صحافی سمیع یوسفزئی کے مطابق افغان قیادت نے یہ نکتہ پاکستانی آرمی چیف کے سامنے رکھا ہوگا اور ان پر بات چیت ہوچکی ہوگی اب دیکھا جائے گا کہ کیا حل نکل آتا ہے۔

لیکن صحافی طاہر خان اس موقف کی تائید نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ طالبان کو اب یقین ہوچکا ہے کہ ہم اکیلے نہیں چل سکتے کیونکہ ایک طرف افغان عوام کی ایک کثیر تعداد ہمارے خلاف ہے تو دوسری جانب اگر ہم نے جنگ روکنے کی دنیا کی بات نہیں مانی تو ہم اکیلے اور کمزور ہوجائیں گے ۔ اور یہی نکتہ پاکستان بھی سمجھتا ہے کہ طالبان کو سپورٹ کرنے سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ پرامن افغانستان ہی ہماری ترقی کا راز ہے اور ماضی میں جو غلطیاں ہوئی ان پر سول اور عسکری لیڈرشپ نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور پاکستان بھی افغانستان کو ماضی کو بھول کر اگے جانے کی تلقین کررہا ہے۔

طالبان کی جانب سے افغانستان میں بچوں کے تعلیمی ادارے پر ہونے والے حملے کے بعد طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن سمیع یوسفزئی کے مطابق یہ حملے طالبان کی جانب سے ہی ہوتے ہیں اور یہ سول وار کا حصہ ہے لیکن بعد میں جب بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور عوام کا ایک دباؤ آتا ہے تو طالبان پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ ہم نے نہیں کیا۔

صحافی طاہر خان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کا مستقبل ایک دوسرے سے جڑا ہے اور دونوں اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ جب تک دونوں ملکوں میں امن نہیں آئے گا تب تک اگے بڑھنا ناممکن ہے تو دونوں جانب کی لیڈر شپ نے ایک بار پھر کوشش کی ہے کہ حالات کو قابو میں رکھا جائے اور کسی بھی غیر یقینی کی صورتحال میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑا جائے ۔ طاہر خان کا ماننا ہے کہ پاکستان افغانستان میں حالات کیوں خراب کریگا جب ازبکستان کے ٹرین کا پراجیکٹ، سی پیک اور افغانستان ٹرانزٹ کا پورا دارومداد امن و امان پر ہے اور اگر افغانستان میں حالات خراب ہونگے تو کیا پاکستان میں شانتی ہوگی نہیں اس لئے اب دونوں کو آگے بڑھنا ہوگا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔