اگست کی سترہ تاریخ کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ایک اعلامیہ موصول ہوا جس میں تحریک کے امیر مفتی نور ولی محسود کی جانب سے تحریک سے جدا ہونے والے دو دہشتگرد گروپ جماعت الحرار اور حزب الحرار کی دوبارہ تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں پلاکت کے بعد جب تحریک طالبان پاکستان کی کمان سوات سے تعلق رکھنے والے جنگجوٗ فضل اللہ کے حوالے کی گئی تو تحریک طالبان پاکستان میں اختلافات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور سال 2014 میں ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے کمانڈر عمر خالد خراسانی نے اپنی جماعت جماعت الحرار کی بنیاد رکھی جن میں زیادہ تر جنگجوں کا تعلق ضلع مہمند سے تھا۔ عمر خالد خراسانی نے جنگ کا سفر کشمیر جنگ سے شروع کیا اور بعد میں وہ تحریک طالبان میں شامل ہوئے۔ عمر خالد کو تحریک طالبان پاکستان میں ایک نمایاں مقام حاصل رہا اور ان کی شناخت ہمیشہ سے سخت گیر رویہ رکھنے والوں میں ہوتا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی کے بعد جماعت الحرار نے عمر خالد خراسانی کی قیادت میں بم دھماکوں، خود کش حملوں، ٹارگٹ کلنگز کی سینکڑوں کارروائیاں کی مگر اس تنظیم کی کارروائی کی شدت اگر ایک طرف پنجاب، خیبر پختون خوا میں محسوس کی گئی تو دوسری جانب تنظیم کی کاروائیوں کی سب سے زیادہ حرارت ضلع مہمند اور باجوڑ میں محسوس کی گئی۔ جماعت الحرار نے ضلع مہمند اور باجوڑ میں نہ صرف تعلیمی اداروں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں امن کمیٹیوں کے رضاکاروں اور مقامی عمائدین کو نہ صرف خود ساختہ بموں سے نشانہ بنایا بلکہ ملک بھر میں چن چن کر ان کو قتل کیا گیا۔
کچھ سال پہلے جماعت الاحرار میں بھی اختلافات سامنے آئے اور تنظیم کے کچھ رہنماوٗں نے ایک الگ تنظیم حزب الحرار کی بنیاد رکھی۔ سال دو ہزار اٹھارہ تک جماعت الحرار ایک طاقتور اور منظم تحریک تھی مگر ان کے بنیادی ڈھانچے پر اگر غور کیا جائے تو تین بنیادی چیزیں ان کی کمزوری کا سبب بنی جن میں صف آول پر حزب الاحرار کا وجود میں آنا تھا جس نے جماعت الاحرار کی طاقت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جبکہ دوسری وجہ جماعت کے امیر عمر خالد خراسانی کی مبینہ ڈرون حملے میں زخمی ہونا تھا جس کے بعد وہ کئی سال تک منظر عام سے غائب رہے اور تنظیم سے ان کا تعلق کمزور ہوتاگیا جبکہ تیسری اور اخری وجہ جماعت الحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کا ریاست پاکستان کو سرنڈر ہونا تھا جن کی وجہ سے یہ تنظیم کمزور ہوگئی اور گزشتہ دو سالوں میں کوئی بڑی کارروائی ان کی جانب سے سامنے نہیں آسکی۔
دہشتگردی پر کام کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ آپریشن ضرب عضب میں تحریک طالبان پاکستان انتہائی کمزور ہوگئی اور ان کی زیادہ تر لیڈرشپ سرحد کے اس پار افغانستان چلی گئی اور سینکڑوں کی تعداد میں ریاستی اداروں نے ان کے جنگجووٗں کو یا تو نشانہ بنایا یا پھر وہ ریاستی اداروں کے سامنے سرنڈر ہوئے۔ تحریک طالبان کے امیر فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد جب تحریک طالبان پاکستان کی کمان دوبارہ سے محسود طالبان کے ہاتھوں میں چلی گئی اور مفتی نور ولی محسود نے کمان سنبھالی تو سیکیورٹی امور کے ماہرین نے خدشے کا اظہار کیا کہ اب تحریک طالبان کو دوبارہ سے منظم کیا جائے گا کیونکہ مفتی نور ولی محسود تحریک طالبان پاکستان کے بانیوں میں سے ہے اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک طالبان دوبارہ سے منظم ہورہی ہے۔ سیکیورٹی کے کچھ ماہرین کی رائے یہی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نہ صرف خود کمزور ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کرنے والے تنظیمیں بھی کوئی خاطر خوا کاروائیاں نہیں کرسکی جس کے بعد تحریک طالبان اور دیگر گروپوں کے درمیان مزاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا تاکہ تحریک کی بکھری ہوئے قوت کو دوبارہ سے منظم کیا جاسکے جس کے بعد دو تنظیمیں تحریک طالبان پاکستان میں ضم ہوئی جبکہ ضلع خیبر میں منگل باغ کی تحریک لشکر اسلام کے ساتھ بھی مزاکرات کا سلسلہ جاری ہے مگر باقاعدہ ضم ہونے کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا۔
گزشتہ کئی مہینوں سے قبائلی علاقہ جات خصوصا شمالی وزیرستان میں ریاست مخالف کاروائیوں میں تیزی آرہی ہے اور سیاسی کارکنوں، امن کمیٹیوں کے رضاکاروں اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ زور پکڑتا جارہا ہے جن کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان قبول کرتی آرہی ہے۔ میڈیا رپورٹس اور مقامی لوگوں کے مطابق قبائلی اضلاع میں نہ صرف دہشتگردی کے کارروائیوں میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ امن و امان سمیت لوگوں میں خوف و ہراس بڑھ رہا ہے۔ قبائلی اضلاع اور خیبر پختون خوا کے کئی علاقوں میں کاروباری حضرات اور پارلیمنٹ کے ممبران سے بھتے بھی مانگے جارہے ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امن و امان کے صورتحال کو ایک بار پھر سے چیلنچ درپیش ہے مگر حکومت یا افواج پاکستان کی جانب سے تاحال کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا۔
سیکیورٹی امور کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان امریکہ امن معاہدے اور بین الفغانی امن مزاکرات سے لیکر قیدیوں کی رہائی تک کے معاملات پر افغان طالبان فاتح نظر آئے جس کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے لئے ایک اخلاقی جواز پیدا ہوا کہ وہ بھی افغان طالبان کی طرح اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور پاکستان کو بھی امریکہ اور افغانستان کی طرح گھٹنے ٹھیکنے پر مجبور کریں اور طالبان کی جانب سے جاری کیا گیا اعلامیہ بھی یہی کچھ بیان کر رہا ہے مگر ماہرین کا دعویٰ ہے کہ بظاہر ایسا نہیں لگ رہا کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے جغرافیے اور سیاسی تاریخ میں بہت فرق ہے اور پاکستانی ریاست کی قانون کی عملداری بہت مضبوط ہے اور اس وقت طالبان کسی بھی پاکستانی علاقے پر قابض نہیں جبکہ افغانستان میں لگ بھگ پچاس فیصد علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے۔
سیکیورٹی امور پر کام کرنے والے مصنف اور تجزیہ کار عامر رانا نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ طالبان کا موجودہ اتحاد پاکستان کے امن و امان کے لئے بڑا چیلینج نہیں کیونکہ جن دو گروپوں نے تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کی نہ صرف وہ کمزور ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان پاکستان بھی خاصی حد تک کمزور ہوچکی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حزب الحرار کا راولپنڈی میں ایک سرگرم نیٹ ورک ہے اور شائد وہ یہاں پر کچھ مسائل پیدا کریں مگر اب یہ دیکھنا ہے کہ سیکیورٹی ادارے کس طرح ان سے نمٹتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ جماعت الحرار بھی مہمند اور باجوڑ میں سرگرم ہے اور وہ ماضی میں بھی ان کا گڑھ رہا مگر جماعت الحرار کی طرح تحریک طالبان بھی کمزور ہے کیونکہ ان کا پاکستان میں کوئی ٹھکانا نہیں تو اس لئے یہ امن و امان کے صورتحال کے لئے اب اتنا بڑا چیلینج نہیں تاہم وزیرستان کے علاقوں میں سیکیورٹی کے مسائل رہینگے کیونکہ وہاں دو تین سالوں سے یہی سلسلہ چل رہا ہے۔ ایک سوال پر کہ کیا تحریک طالبان پاکستان افغان طالبان کے امریکہ سے امن معاہدے اور افغان حکومت سے قیدیوں کی رہائی کے بعد ایک امید سے منظم ہورہے ہیں تاکہ وہ بھی پاکستان پر دباوٗ بڑھا سکیں؟ پر عامر رانا اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان اگر دو تین سال پہلے اتحاد کرلیتے تو شائد کوئی اثرات نظر آتے مگر موجودہ حالات میں ایسا ممکن نہیں دیکھائی دے رہا اور نہ ہی تحریک طالبان پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پاکستان پر دباوٗ ڈالے۔