پاکستان میں پانچویں جماعت کے 45 فیصد بچے دوسری جماعت کی انگریزی، 47 فیصد ریاضی نہیں سمجھ سکتے: رپورٹ

پاکستان میں پانچویں جماعت کے 45 فیصد بچے دوسری جماعت کی انگریزی، 47 فیصد ریاضی نہیں سمجھ سکتے: رپورٹ
پاکستان میں تعلیم کے حالات پر سالانہ رپورٹ پیر کی صبح وزیرِ تعلیم شفقت محمود اور وزارتِ پلاننگ کے ڈپٹی چیئرمین محمد جہانزیب خان نے پیش کی ہے جس کے مطابق پاکستانی دیہی علاقوں میں زیرِ تعلیم پانچویں جماعت کے 45 فیصد بچے دوسری جماعت کے نصاب میں شامل انگریزی جملے نہیں پڑھ سکتے۔

اس رپورٹ کے مطابق پانچویں جماعت کے صرف 59 فیصد بچے ایسے ہیں جو دوسری جماعت کی اردو کی کہانیاں، یا سندھ اور خیبر پختونخوا میں وہاں کی مقامی زبانوں یعنی سندھی اور پشتو کی دوسری جماعت کی کتاب میں موجود کہانیاں پڑھ سکتے ہیں۔

پانچویں جماعت کے صرف 60 فیصد بچے گھڑی دیکھ کر ٹائم بتا سکتے ہیں۔ 60 فیصد بچے جمع اور تفریق کے سوال حل کر سکتے ہیں لیکن ضرب اور تقسیم کے سوال حل کرنے کی قابلیت صرف 53 فیصد بچوں میں ہے۔



نجی تعلیمی اداروں کے حالات قدرے بہتر ہیں اور رپورٹ کے مطابق بچوں کی کارکردگری بچیوں کی نسبت کچھ بہتر ہے۔

واضح رہے کہ شہری علاقوں میں صورتحال دیہی علاقوں کی نسبت خاصی بہتر ہے جہاں پانچویں جماعت کے 70 فیصد بچے دوسری جماعت کی اردو کی کہانیاں پڑھ سکتے ہیں، تقریباً 67 فیصد دوسری جماعت کے نصاب میں شامل انگریزی جملے اور 66 فیصد بچے دوسری جماعت کے نصاب میں شامل تقسیم کے سوالات حل کر سکتے ہیں۔ یہ شرح دیہی علاقوں کی نسبت تو بہتر ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر کوئی قابلِ فخر صورتحال یہ بھی نہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2019 کے درمیان پانچویں جماعت کے طلبہ کی کارکردگی میں 13 سے 17 فیصد بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں 6 سے 16 برس کی عمر کے بچوں کی سرکاری سکولوں میں داخلوں کی شرح بھی آبادی کے 70 فیصد سے بڑھ کر 77 فیصد ہو گئی ہے۔

اساتذہ کی تعلیم

رپورٹ کے مطابق سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ میں سے پہلے صرف 33 فیصد کے پاس گریجویٹ ڈگریاں موجود تھیں لیکن 2019 تک یہ شرح 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے اساتذہ کی تعداد سرکاری سکولوں میں زیادہ ہے لیکن کتنی زیادہ ہے یہ رپورٹ میں واضح نہیں کیا گیا۔ سرکاری اور نجی طرز کے سکولوں میں اساتذہ کی حاضریوں کی شرح 89 فیصد رہی۔

سکولوں کی حالتِ زار

رپورٹ کے مطابق سکولوں میں سہولیات کے حوالے سے نجی سکول واضح طور پر سرکاری سکولوں پر برتری رکھتے ہیں، جہاں 87 فیصد سکولوں کی چار دیواری موجود ہے جب کہ سرکاری سکولوں میں سے صرف 75 فیصد چار دیواری کی سہولت رکھتے ہیں۔

نجی سکولوں میں سے 89 فیصد میں ٹوائلٹ موجود ہیں جب کہ صرف 59 فیصد سرکاری سکولوں کے طلبہ اس سہولت سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔



یاد رہے کہ گیلپ اور گیلانی فاؤنڈیشن کے ایک حالیہ سروے کے مطابق یونیورسٹی سطح پر 75 فیصد طلبہ نے اپنے کورس کے علاوہ کبھی کوئی کتاب پڑھنے کی زحمت نہیں کی جب کہ صرف 9 فیصد سمجھتے ہیں کہ انہیں کتابیں پرھنے کا شوق ہے۔

حکومت کو نہ صرف تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے بلکہ سرکاری سکولوں کی حالتِ زار بہتر بنانا بھی لازمی ہے تاکہ طلبہ سکول میں تعلیم حاصل کرنے کو ضرورت ہی نہ سمجھیں بلکہ تعلیم حاصل کرنا ان کے لئے ایک خوشگوار activity ہو اور ان کے دماغ اس جانب راغب ہو سکیں۔