قائداعظم یونیورسٹی کی بندش سے تعلیمی سرگرمیاں معطل، طلبہ کا حکام سے ایکشن لینے کا مطالبہ

قائداعظم یونیورسٹی کی بندش سے تعلیمی سرگرمیاں معطل، طلبہ کا حکام سے ایکشن لینے کا مطالبہ
قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ نے چند شرپسند عناصر کی جانب سے یونیورسٹی کو یرغمال بنانے، اس کی بندش اور تعلیمی سرگرمیوں کی معطلی کو مسترد کرتے ہوئے ان کیخلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

طلبہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی کسی بڑے سانحہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ مطالبات پورے نہ ہونے پر اسلام آباد کو بند کرنے سمیت تمام آپشنز بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔

قائداعظم یونیورسٹی کی بندش کیخلاف نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حارث عبداللہ، اسرار احمد خان، اسد اللہ اعوان،عطاالرحمان ودیگر کا کہنا تھا کہ قائداعظم یونیورسٹی گذشتہ تین دن سے مٹھی بھر شرپسند عناصر کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے جنہوں نے لسانیت کی بنیاد پر زبردستی یونیورسٹی پر قبضہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی عمل معطل ہو چکا ہے جس سے طلبہ کی پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے۔

طلبہ رہنمائوں کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال 22 دسمبر کو انہی شرپسندوں نے یونیورسٹی کے چھ طلبہ کو ان کی نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر اغوا کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کی ایف آئی آر اسلام آباد کے تھانہ سیکریٹریٹ میں درج ہے۔ اس واقعہ کے بعد اس گروہ نے اس سلسلے کو جاری رکھا جس پر 20 جنوری کو ایک بار پھر ان کے خلاف ایک اور ایف آئی آر درج کرائی گئی جبکہ 28 جنوری کو ایک طالبہ کو ہراساں کرنے کا مقدمہ بھی تھانے میں درج ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان شرپسند عناصر کی انہی جرائم کے پیش نظر یونیورسٹی انتظامیہ نے تحقیقات کرنے کے بعد کارروائی کرتے ہوئے ان واقعات میں ملوث طلبہ کو یونیوسٹی سے نکال دیا تھا تاہم وہ دھونس کے ذریعے یونیورسٹی ہاسٹل پر قابض ہیں۔ دو دن قبل انہی نکالے جانے طلبہ نے یونورسٹی کو یرغمال بناتے ہوئے اس پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے جس کی وجہ سے یونیوسٹی میں جاری تعلیمی سرگرمیاں معطل اور طلبہ کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے اور ان کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں یونیورسٹی انتظامیہ، طلبہ اور والدین نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو ان شرپسند عناصر کیخلاف کارروائی کیلئے باضابطہ خط بھی لکھا تاہم شہری انتظامیہ کی طرف سے ابھی تک کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی جو کہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ شک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان شرپسندوں کو اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔

انہوں نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی کو یرغمال بنانے والوں کو فوری طور پر گرفتار کرتے ہوئے پرامن تعلیمی عمل کو بحال کیا جائے کیونکہ ضلعی انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے کسی بڑے سانحہ کا خدشہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو وہ اسلام آباد کو بند کرنے سمیت تمام آپشنز استعمال کر سکتے ہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔