1910 میں انہوں نے اپنی زمین پر ایک مدرسہ بنایا۔ 1911 میں وہ حاجی صاحب آف ترنگزئی کی قیادت میں پشتونوں کی آزادی کی تحریک میں شامل ہو گئے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1915 میں برطانوی راج نے ان کے مدرسے پر پابندی عائد کر دی۔ اس تحریک کی ناکامی اور دیگر کئی تحریکوں کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے باچا خان نے فیصلہ کیا کہ پشتون سرزمین پر آزادی کو کوئی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ پشتون قوم اپنے حقوق کو پہچان نہیں لیتی اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے انقلاب اور آزادی کی بجائے سماجی کارکن بن کر معاشرے کی اصلاح کا فیصلہ کیا۔
اسی سوچ کے تحت انہوں نے 1921 میں انجمن اصلاح افغانیہ قائم کی اور 1927 میں نوجوانوں کی تحریک پشتون جرگہ کی بنیاد رکھی۔ بالآخر 1929 میں انہوں نے خدائی خدمتگار تنظیم قائم کی اور اسی تحریک کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ان کے خلاف حکومت نے کریک ڈاؤن کیا۔ بادشاہ خان یا باچا خان کا لقب اس سے بہت پہلے ہی ان کو مل چکا تھا جب 1915 سے 1918 کے درمیان انہوں نے متعدد دیہاتوں اور اضلاع کے دورے کر کے پشتونوں کو متحد ہونے کا درس دیا جس کی بنیاد پر انہیں بادشاہ خان، یعنی قبائلی خانوں کا بادشاہ قرار دیا جانے لگا جو تمام قبائل کو ایک قوم بنانے کی کوشش میں جٹا تھا۔
خدائی خدمتگار تحریک اور گاندھی جی کا فلسفہ عدم تشدد
رفتہ رفتہ باچا خان اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان کے باسیوں کے مسائل کا حل اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب یہ اپنے فیصلے خود کر سکیں اور انگریز راج کو برصغیر سے ختم کر دیا جائے۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے خدائی خدمتگار تحریک کی بنیاد رکھی۔ ان کی یہ تحریک مہاتما گاندھی کے ستیہ گرہ اور عدم تشدد کے فلسفے کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی۔ انہوں نے اس تنظیم کے عہدیداروں سے ایک دفعہ بات کرتے ہوئے کہا کہ:
میں تمہیں ایک ایسا ہتھیار دے رہا ہوں جس کا مقابلہ پولیس اور فوج نہیں کر سکتے۔ یہ پیغمبرؐ اسلام کا ہتھیار ہے جسے تم پہچان نہیں سکے۔ یہ ہتھیار ہے صبر اور سچائی کا۔ دنیا کی کوئی طاقت اس کے آگے کھڑی نہیں ہو سکتی۔
یہ تنظیم اتنی مقبول ہوئی کہ کچھ ہی عرصے میں اس کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی اور یہ خدائی خدمتگار عدم تشدد کے اصول پر قائم رہتے ہوئے ہڑتالوں اور سیاسی تنظیم سازی کے ذریعے انگریزوں کی فوج اور پولیس کے خلاف بھرپور مزاحمت کرنے لگی۔
قصہ خوانی بازار میں خدائی خدمتگاروں کا قتلِ عام
نمک ستیہ گرہ تحریک کے دوران باچا خان کو پولیس نے گرفتار کیا تو خدائی خدمتگاروں نے پشاور کے قصہ خوانی بازار میں بڑی تعداد میں جمع ہو کر اس کے خلاف احتجاج کیا۔ انگریز پولیس کی جانب سے مجمع پر گولی چلا دی گئی اور اس میں قریب 200 سے 250 افراد اپنی جانوں سے گئے۔ اس واقعے کے بعد کانگریس کی نظر میں خدائی خدمتگاروں کی تحریک کی اہمیت اور احترام مزید بڑھ گئے۔ گاندھی جی کے فلسفے پر سختی سے کاربند ہونے کے باعث انہیں سرحدی گاندھی کا خطاب بھی دیا گیا۔
پشتونستان کا مطالبہ
پشتونستان کا مطالبہ سب سے پہلے کہاں سے آیا، اس حوالے سے متضاد آرا موجود ہیں۔ شمال مشرقی سرحدی صوبے کے آخری انگریز گورنر اولف کیرو اس کا ذمہ دار خود کو قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مشورہ انہوں نے ڈاکٹر خان کو دیا تھا کیونکہ ان کے نزدیک یہ مسلم لیگ کے علیحدہ وطن کے مطالبے کے مقابلے میں ایک کاؤنٹر کے طور پر کام کر سکتا تھا۔ انہوں نے 22 مئی 1947 کو قائم مقام وائسرائے کول ولا کو ایک خط میں بتایا تھا کہ انہوں نے یہ مشورہ ڈاکٹر خان کو دیا تھا اور اس وقت تو وہ بہت سیخ پا ہوئے تھے لیکن اب انہوں نے اس کا پرچار شروع کر دیا ہے۔ گویا، آزاد پشتونستان کا بنیادی خاکہ اولف کیرو کا فراہم کردہ تھا۔ جب آزادی کا وقت قریب پہنچا تو انڈین نیشنل کانگریس نے مطالبہ کیا کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو صرف ہندوستان اور پاکستان میں شمولیت کا موقع نہ دیا جائے بلکہ آزاد پختونستان کا تیسرا آپشن بھی اس ریفرنڈم میں موجود ہونا چاہیے۔ ماؤنٹ بیٹن نے انہیں یاد دلایا کہ صرف ایک صوبے میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے اور باقی پورے ہندوستان کے صوبوں کے لئے اس تیسرے آپشن کی کانگریس کی جانب سے بھرپور مخالفت پر ہی اس فیصلے کو تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ بات ڈاکٹر خان اور کانگریس دونوں کی کچھ سمجھ میں آئی لیکن ڈاکٹر خان کا کہنا تھا کہ صوبہ سرحد کسی صورت پاکستان میں شامل نہ ہوگا۔
جب قائد اعظم محمد علی جناح کے سامنے ماؤنٹ بیٹن نے یہ معاملہ رکھا تو ان کا بھی یہی سوال تھا کہ یہ مطالبہ صرف ایک صوبے کے حوالے سے کیا گیا ہے یا تمام ہندوستان کے، تو ماؤنٹ بیٹن نے انہیں بتایا کہ کانگریس لیڈرشپ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی تو وہ اس مطابے سے دستبردار ہو گئے۔ لیکن جب یہ آپشن تمام فریقین کی باہمی رضامندی سے رد کر دی گئی تو کانگریس نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہی فیصلہ ڈاکٹر خان نے بھی کیا۔ اور بالآخر ریفرنڈم میں صوبہ سرحد کے عوام نے بھاری اکثریت سے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دے دیا۔
پاکستان بننے کے بعد باچا خان کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟
پاکستان تو بن گیا لیکن اپنی فتح کے بعد مسلم لیگی لیڈران کی جانب سے بڑا پن دکھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے حکم پر ہی ڈاکٹر خان کی حکومت الٹانے کا غیر جمہوری فیصلہ کیا گیا۔ 22 اگست 1947 کو حکومت گرا دی گئی اور اس کی کوئی وجوہات بھی بیان نہیں کی گئیں۔ صرف ایک غیر سرکاری رپورٹ شائع کروا دی گئی کہ ڈاکٹر خان تو کہتا تھا کہ 20 فیصد لوگوں نے بھی مسلم لیگ کی حمایت کی تو اسمبلیاں تحلیل کر دے گا لیکن پھر اپنے وعدے سے منحرف ہو گیا۔ یہ غیر جمہوری عمل پاکستان میں حکومتوں کے بلاوجہ الٹائے جانے کی بنیاد فراہم کر گیا۔
باچا خان کا پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان
ڈاکٹر خان کی حکومت گرانے کے باوجود باچا خان مسلم لیگ کے ساتھ چلنے کے لئے تیار تھے۔ باچا خان نے مسلم لیگی قیادت سے رابطے کیے اور فروری 1948 میں قائد اعظم سے کراچی میں ملاقات بھی کی۔ مارچ 1948 میں انہوں نے قانون ساز اسمبلی کا حلف اٹھایا اور وہاں پاکستان کے فیصلے کی ماضی میں مخالفت کو تسلیم کرتے ہوئے نئی حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا اعلان کیا۔
پشتونستان مطالبے کی وضاحت
باچا خان نے اس تقریر میں پختونستان مطالبے کی وضاحت بھی کر دی اور کہا کہ وہ پاکستان کو توڑ کر ایک نیا ملک بنانے کی خواہش نہیں رکھتے، صرف صوبائی خود مختاری کی بات کر رہے ہیں۔
عبدالقیوم خان کی سازش
تاہم، خان عبدالغفار خان کا اصل دشمن عبدالقیوم خان تھا جسے ڈاکٹر خان حکومت برطرف کرنے کے بعد صوبہ سرحد کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ مسلم لیگی قیادت کو گورنر سرحد کی جانب سے بار بار یہ پیغامات بھیجے گئے تھے کہ خان عبدالغفار خان مل کر چلنا چاہتا ہے، اسے تنگ نہ کیا جائے، لیکن عبدالقیوم خان کو پتہ تھا کہ باچا خان کے مسلم لیگی قیادت سے معاملات ٹھیک ہونے کی صورت میں اسے اتنی بڑی اور کلیدی پوسٹ سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ لہٰذا اس نے خدائی خدمتگاروں کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے اخباروں میں رپورٹس بھی مرتب کروائیں جن میں باچا خان کے صحیح غلط بیانات کو رپورٹ کیا جاتا۔ ان میں سے زیادہ تر رپورٹس ادارہ نوائے وقت کے اخبار نوائے پاکستان میں شائع ہو رہی تھیں۔ یہاں تک کہ صوبہ سرحد کے عوام کی جانب سے ان کی گرفتاری کے مطالبات سے متعلق جھوٹی خبریں چھاپی جاتیں اور ایک بھونڈے انداز میں جب 15 جون 1948 کو انہیں گرفتار کیا گیا تو اس پر نوائے پاکستان نے لکھا کہ حیرت ہے کہ یہ گرفتاری اتنی دیر سے کیوں عمل میں لائی گئی۔
محقق اور صحافی زاہد چودھری اپنی کتاب ’پختون مسئلہ خود مختاری کا آغاز‘ میں اس گرفتاری کو یوں بیان کرتے ہیں۔
بعد ازاں جب ممتاز دولتانہ کے ایما پر نوائے وقت کی پالیسی بدلی تو اس نے باچا خان کی رہائی کے مطالبے میں بھی کئی اداریے لکھے، لیکن تب تک بہت سیر ہو چکی تھی۔ خان عبدالغفار خان کی گرفتاری کو اس وقت قریب چار سال گزر چکے تھے اور پنجاب کے عوام کے ذہنوں میں ان کے نام کے ساتھ ’غدار‘ کا ٹیگ لگ چکا تھا۔
باچا خان نے جی ایم سید اور دیگر قوم پرست بلوچوں، سندھیوں، پشتونوں اور بنگالیوں کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی بنیاد بھی رکھی لیکن اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ون یونٹ کے خلاف مزاحمت پر بھی ان کو جیل میں ڈالا گیا۔ بعد ازاں نیشنل عوامی پارٹی پر بھی ملک دشمنی اور غداری کے الزامات لگتے رہے۔ یہ سلسلہ 1970 کی دہائی تک زور و شور سے جاری رہا۔ بھٹو دور میں عبدالولی خان اور انہیں ایک بار پھر پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا اور ان کی جماعت پر عدالت کی جانب سے پابندی بھی عائد کر دی گئی۔
تاہم، ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ان کو جیل سے رہائی دے دی کیونکہ وہ ان کی سیاسی حیثیت کو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا۔ خان عبدالغفار خان قریب 98 برس کی عمر میں 20 جنوری 1988 کو انتقال کر گئے تو انہوں نے جلال آباد میں دفن ہونے کا فیصلہ کیا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ غداری کے الزامات سے انہیں کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ وہ آخری وقت تک پشتونوں کے اتحاد پر زور دیتے رہے اور جلال آباد میں دفن ہو کر انہوں نے یہ یقینی بنا دیا کہ پشتونوں کے اتحاد کا خواب ان کے مرنے کے بعد بھی قائم رہے۔