عمران خان اور رنگیلا

عمران خان اور رنگیلا
یہ نہ سمجئیےمیں یہاں عمران خان کا موازنہ محمد شاہ رنگیلا کے ساتھ کررہا ہوں جو اپنی عیاشیوں اور بے راہ روی کی وجہ سے مشہور تھا۔اس رنگیلے کے ساتھ عمران کا موازنہ بھی اکثر لوگ کرتے رہتے ہیں لیکن رنگیلا سے میری مراد پاکستان کے مشہور کامیڈین فلمسٹار رنگیلا سے ھے۔ عمران خان کے اپنی نااہلی اور نالائقی کے اقبال ِجرم کے بعد مجھے 70 کے عشرے کی ایک مشہور پاکستانی کامیڈی فلم " رنگیلا اور منور ظریف" یاد آ گئی جسے دوبارہ دیکھنے کا اتفاق مجھے حال ہی میں ہوا ھے

یہ فلم یو ٹیوب پر موجود ھے۔ اس میں رنگیلا اور منور ظریف کو نوسر باز دکھایا گیا ہے جو لوگوں کو لوٹنے کے لئے مختلف کام کرتے ہیں ایسے کام جو انہیں قطعاً نہیں آتے۔ اسی فلم کے ایک سین میں رنگیلا گھڑی ساز بنا ہوتا ھے، ایک شخص اپنا ٹائم پیس مرمت کے لئے اس کے پاس لاتا ھے۔ چونکہ اسے کچھ پتہ تو ہوتا نہیں، کبھی وہ ٹائم پیس کی چابیاں مروڑتا ھے ،کبھی اسے ادھر ادھر ہلاتا ہے۔کبھی اس کے اوپر تھپڑ مارتا ہے۔جب کچھ سمجھ نہیں آتی تو اس پر ہتھوڑی سے وار کر کے اسے توڑ دیتا ھے۔ پھر اسے اپنے کان سے لگا کر چیک کرتا ھے۔ پھر منہ لٹکا کر اور رونی صورت بنا کر ٹائم پیس واپس کرتے ہوئے گاہک سے کہتا ھے۔ سوری بھائی جان ! یہ ٹائم پیس ٹھیک نہیں ہو سکتا۔"

یہی حال عمران خان کا ہے جس نے ڈھائی سال میں ثابت کر دیا ھے کہ وہ راج نیتی یا ملکی امور کو چلانے میں مکمل نا اہل اور شیخی خورا ثابت ہواھے ۔نہ تو اس کا سیاست اور تاریخ کے بارے میں کوئی مطالعہ ھے نہ ہی وہ بنیادی طور پر ذہین اور متوازن ذہن کا مالک ھے۔وہ صحیح معنوں میں" ڈفر خان "ھے۔

اس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ قدرت نے ہر شخص کو ہرکام کرنے کی صلاحیت نہیں دی۔بعض اوقات انسان کی غیر حقیقی اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اور اس کے چاہنے والوں کی اندھی عقیدت اسے اور قوم کو لے ڈوبتی ھے۔۔ڈھائی سال کے دوران ہونے والی ریکارڈ ملکی تباہی کے باوجود(جس کا ازالہ ناممکن ھے) اس کے اندھی عقیدت والے شائد اس کے اعتراف ِجرم کو بھی اس کا کارنامہ بنا دیں۔

لیکن قانون اور انصاف کی نظر میں اعتراف ِجرم کے بعد جزا نہیں سزا ملتی ھے۔ مگر اسے کون سزا دے گا جس نے پہلے سات آٹھ سال سے ملکی سیاست میں گالم گلوچ ، ہلڑ بازی اور ہر مخالف کی کردار کشی کے لئے غلیظ زبان استعمال کرنے کا رواج دیا۔ حالانکہ ایک سپورٹس مین اور وہ بھی کرکٹ جیسی جینٹلمینز گیم کی وجہ سے امید تھی کہ سیاست میں وقار،سنجیدگی اور بردباری آئے گی۔ لیکن اس نےتو وزیراعظم کی حیثیت سے بھی بازار کے لونڈوں کی طرح منہ پر ہاتھ پھیر کر بدلہ لینے کا کلچر دیا جو ابھی تک ہماری سیاست میں ناپید تھا۔ ڈھائی سال میں ملک کے ہر ادارے کوتباہ و برباد کرنے اور ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے بعد جو سزا عوام بھگت رہے ہیں، اعتراف ِجرم کے بعد وہ سزا موجودہ دور کے رنگیلے کو بھی ایک دن بھگتنا پڑے گی کیونکہ فلم والے رنگیلے نے اپنی ناتجربہ کاری سے ایک ٹائم پیس تباہ کیا تھا مگر آج کے سیاسی رنگیلے نے پورا ملک توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ھے۔

ڈاکٹر خالد جاوید جان ایک ترقی پسند سماجی کارکن اور شاعر ہیں۔ وہ مشہور زمانہ نظم ’ میں باغی ہوں ‘ کے مصنف ہیں۔