بلوچستان پولیس کا کہنا ہے کہ تربت میں حیات بلوچ کو قتل کرنے والے فرنٹیئر کور کے اہلکار نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیے جانے والے بیان کو عدالتیں مقدمے کی سماعت کے دوران قبول کرتی ہیں جبکہ اس کے برعکس دورانِ تفتیش ملزم کے پولیس کے سامنے دیے گئے اعترافی بیان کو عدالت بطور ثبوت تسلیم نہیں کرتی اور اسے ثابت کرنے کے لیے پولیس کو مزید ثبوتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
حیات بلوچ 13 اگست کو تربت میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے مقام کے قریب اپنے والدین کے ہمراہ کھجوروں کے باغ میں موجود تھے اور دھماکے کے بعد ایف سی کے اہلکاروں میں سے ایک نے انھیں گولی مار دی تھی۔
پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ دورانِ تفتیش ملزم نے بتایا کہ وہ اپنی ملازمت کے دوران دو مرتبہ مختلف واقعات میں شدید زخمی ہوا تھا اور جب تربت میں دھماکہ ہوا تو اس وقت انتہائی مشتعل ہو گیا تھا اور ماضی میں زخمی ہونے کے واقعات اس کے ذہن میں گھوم رہے تھے۔ پولیس کے مطابق ملزم کا کہنا ہے کہ اس دوران سڑک پر اسے حیات بلوچ نظر آیا جس پر اس نے ریموٹ کنٹرول دھماکے کا ذمہ دار اسے ہی سمجھا اور اشتعال میں آ کر حیات بلوچ کو قتل کر دیا۔