گزشتہ سال تربت میں یونیورسٹی طالبعلم حیات بلوچ کو قتل کرنے والے ایف سی اہلکار کو سزائے موت سنادی گئی

گزشتہ سال تربت میں یونیورسٹی طالبعلم حیات بلوچ کو قتل کرنے والے ایف سی اہلکار کو سزائے موت سنادی گئی

گزشتہ سال اگست میں ایک تصویر نے پورے پاکستان کو ہلا دی اتھا۔ اس تصویر میں ایک نوجوان کی خون میں لت پت لاش پڑی ہے اور بوڑھے ماں باپ آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے غم کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔


یہ بلوچستان کے علاقہ تربت کے رہائشی حیات بلوچ نامی نوجوان کی تھی جسے ایف سی اہلکار نے گولیوں سے چھلنی کر کے قتل کردیا تھا۔ یہ سب اس وقت ہوا جب تربت بازار میں ایف سی کے کانوائے کی گاڑی کو دھماکے کا نشانہ بنایا گیا اور قریبی کھیت میں حیات اپنے والدین کےساتھ کھجوروں کے باغ میں کام میں مصروف تھے۔ کہ اسی وقت  ایف سی اہلکاروں نے حیات بلوچ کو دبوچا اور سڑک پر لے گئے۔ وہ اسے دہشتگردوں کا ساتھی قرار دے رہے تھے۔ اس سے قبل کہ کوئی وضاحت پیش کی جاتی ان اہلکاروں میں سے ایک نے حیات پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔


اب تربیت کی ایک عدالت نے طالب علم حیات بلوچ کو قتل کرنے والے ایف سی اہل کار کو سزائے موت سنائی ہے۔ ایف سی اہلکار شادی اللہ کو دفعہ نمبر تین سو دو کے تحت سزا سنائی گئی۔





حیات بلوچ کے خاندان نے عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق  ان کا کہنا تھا کہ پورے کیس کے دوران ہم پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ ہم نے آزادانہ طریقے سے کیس کی پیروی کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انکے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اب شاید وہ سکون سے سو سکیں گے۔




حیات بلوچ کراچی میں ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ وہ فزیالوجی کے طالب علم تھے۔ اور انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنے اخراجات محنت مزدوری کرکے پورے کرتے تھے۔


 یاد رہے کہ ابھی مجرم کے پاس ایک ماہ کی مہلت ہے۔ اس دوران وہ فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل کراچی میں رینجرز اہلکاروں کے یاتھوں سرفراز نامی نوجوان کے  قتل  کے مقدمہ میں رینجرز اہلکاروں کو صدر پاکستان کی جانب سے سزا معاف کر دی گئی تھی۔