مقام افسوس ہے کہ آج پاکستان کے عوام کو ایک شخص اپنی ذاتی انا، چند روزہ اقتدار اور پارٹی مفادات کیلئے گمراہ کرنے پر تل گیا ہے۔ ملک میں نفرت اور فساد کو فروغ دے رہا ہے اور اپنے سیاسی مخالفین کیخلاف ایک جھوٹا پراپگینڈا کر رہا ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ وہ ملک دشمن یا کسی غیر ملکی قوتوں کے آلہ کار ہیں۔
عمران خان کا یہ بیانیہ انتہائی خود غرضی پر مبنی اور ہزار فیصد جھوٹ کا پلندہ ہے، مگر پھر بھی کچھ لوگ اس سے شدید متاثر ہیں۔ آئیے آپ کو کچھ حقائق دوبارہ یاد کروائیں۔
عمران خان کی پارٹی کو تمام تر کوششوں اور امداد کے 2018ء کے انتخابات میں محض 31 فیصد ووٹ پڑے تھے جبکہ باقی جماعتوں کو مجموعی طو پر 69 فیصد ووٹ ملے۔ لہذا یہ جماعتیں کروڑوں پاکستانیوں کے ووٹ لے کر پارلیمان میں پہنچیں اور سارے پاکستان کی نمائندہ ہیں۔
اب ذرا نظر دوڑائیں کہ ان پارٹیوں میں بیٹھے ممبران میں کون کون سے لوگ ہیں جن کو عمران خان اپنی انا کی خاطر بدنام کرنے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے۔
ان اراکین میں بے شمار معززین وہ ہیں جنہوں نے اپنی جانیں، مال، اسباب اولادیں پاکستان میں جمہوریت کی بقا کیلئے قربان کیں۔ انہوں نے آمروں کی جیلیں کاٹیں، تشدد برداشت کئے، اپنے خاندان اور اولادوں پر ہونے والے مظالم سہے مگر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔
ان میں بلاول بھٹو زرداری بیٹھا ہے جس کی ماں پاکستان کی عظیم، دلیر اور شیر دل لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو تھیں۔ وہ بینظیر بھٹو جس نے تمام تر خطرات کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان اور پاکستان میں جمہوریت کی بقا کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔
جس کے نانا نے آمریت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونے اور پھانسی کے پھندے پر جھول جانا پسند کیا۔ ان میں آصف علی زرداری بھی ہے جس نے اپنی جوانی جیلوں میں گزار دی۔ بدترین تشدد برداشت کیا مگر اف تک نہ کی۔
ان میں شاہ زین بگٹی بھی ہے جس کے دادا کو ایک آمر نے بم مار کر شہید کر دیا اور اس کی لاش تک نہ دی تھی۔ ان میں امیر حیدر خان ہوتی بھی بیٹھا ہے جس کا آدھا خاندان دہشتگردوں نے مار ڈالا، جنہوں نے جوان لاشے دفنائے لیکن پھر بھی پاکستان کے وفادار رہے۔
وہ شہید بشیر بلور اور شہید ہارون بلور کے وارث ہیں۔ ان میں میاں افتخار حسین جیسا عظیم انسان بھی ہے جس کے عزم وحوصلے کے سامنے ہمالیہ پہاڑ بھی جھک جائیں۔ جس کا لاڈلا اکلوتا بیٹا، ان کے خاندان کا واحد چشم وچراغ ظالموں نے مار ڈالا اور وہ پھر بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی بات کرتا ہے۔ سلام ہے۔
ان میں بلوچ سردار بھی بیٹھے ہیں۔ جن کے خاندان والوں کی لاشوں سے قبرستان بھر دیئے گئے۔ مگر وہ آج بھی پاکستان کی قومی اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ اور آئین پاکستان سے وفاداری کا عہد نبھا رہے ہیں۔
ان میں ہی مہاجر رہنما بھی بیٹھے ہیں۔ جن کے اسلاف اپنا سب کچھ قربان کرکے پاکستان آئے اور پاکستان کی محبت میں انہوں نے اپنے گھر بار سب بھلا دیئے۔ انہوں نے بے پناہ دکھ اٹھائے۔ ان پر کیا کیا نہ بیتی، کیسے کیسے آپریشن کئے گئے مگر وہ آج بھی پاکستان کے مقتدر ایوان میں آئین پاکستان سے وفاداری کا حلف لئے بیٹھے ہیں۔
ان میں صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ ہیں جن کے اسلاف تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ ان میں خواجہ سعد رفیق ہیں جن کے والد کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اور وہ آج بھی بے گناہ اور بے توقیر جیلوں میں قید کی اذیت برداشت کرتا رہا۔
ان میں رانا ثناء اللہ جیسے جی دار لیڈر بھی ہیں جن پر جھوٹے مقدمے بنے اور شدید گرمی میں جیلوں کے اندر انھیں اذیتیں دی گئیں مگر وہ آج بھی پاکستان زندہ باد ہی کہتا ہے۔
ان میں احسن اقبال بھی ہے جس کے جسم میں پستول کی گولی اس پر ہوئے قاتلانہ حملے کی نشانی کے طور پر آج بھی موجود ہے۔ ان میں شہباز شریف بھی ہے جس کو بیماری کی حالت میں جیلوں میں ڈالا گیا، بکتر بند گاڑیوں میں گھسیٹا گیا۔ اور پنجاب کی 8 سال خدمت کے باوجود دھکے دلوائے گئے، مگر آفرین ہے کہ وہ آج بھی کہتا ہے کہ میں پاکستان کی خدمت کروں گا۔
یہ سب لوگ اور ان کے علاوہ بے شمار اراکین ہمارے لئے محترم ہیں اور ان کی جدوجہد باعث افتخار ہے۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر زرا سوچیں کہ ہم میں سے کوئی بھی اس قربانی کا تصور کر سکتا ہے؟ جو بھٹو خاندان نے دی، جتنی تکلیفیں شریف خاندان کو دی گئیں، اسے کوئی اٹھانے کو تیار ہے۔
کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ان کے پیاروں کو سر بازار خون میں نہلا دیا جائے اور آپ اس اذیت سے گزر کر پاکستان، اس کے آئین اور قانون کے وفادار رہیں۔ کہنا تو بہت آسان ہے لیکن کرنا انتہائی مشکل ہے۔
جن لوگوں نے خاک اور خون کے دریا عبور کئے ہیں ان کی عزت اور تکریم سب پر فرض ہے۔ کسی بھی جھوٹۓ بیانیہ کو ماننے سے پہلے سوچیں کہ آپ نے خود کیا کیا ہے؟ پاکستان کیلئے کوئی چھوٹی سی کاوش کرکے دکھائیں۔
عمران خان اپنی ذاتی انا کیلئے جو جھوٹا بیانیہ بنا رہا ہے، اس کی حقیقت بہت جلد سب کے سامنے ہوگی۔ اسمبلی میں حکومت اکثریت بناتی ہے اور عمران خان نیازی اکثریت کھو بیٹھا۔ اس کی وجہ ہرگز کوئی غیر ملکی سازش نہیں بلکہ اس کی وجہ تکبر، انا، اس کی ناکام پالیسیاں، اپنے وعدوں سے انحراف اور وعدوں پر پورا نہ اترنا ہے۔ اس کے ساتھیوں اور اتحادیوں کے الگ ہونے کا سبب اس کا غرور اور ان کیساتھ ایفائے عہد نہ کرنا ہے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ جھوٹے پراپگینڈے سے صرف ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جا سکتا ہے، اصل ترقی نہیں ہو سکتی۔ درخت لگانے کے اعلانات سے درخت اگ نہیں جاتے۔ ناکامی کو قبول کرنے کی بجائے الزام تراشی بزدلوں کا کام ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں، صرف اراکین اسمبلی کے ناموں کی لسٹ پڑھیں اور دیکھیں کہ ہم کسی کے متعلق کیا بات کر رہے ہیں۔
اگر ان میں سے بہت سوں کی خدمات کو سراہ نہیں سکتے تو کم از کم عمران نیازی کے بیانیے کو یہ کہہ کر مسترد کریں کہ پاکستان کیلئے عظیم قربانیاں دینے والے کبھی پاکستان کے بدخواہ نہیں ہوسکتے۔
ٹیگز: establishment, foreign conspiracy, Imran Khan, pakistan, PTI, usa, امریکا, پاکستان, عمران خان, غیر ملکی سازش