مریم نواز کے شیر اور پنجاب پولیس آمنے سامنے، گھمسان کا رن پڑے گا

مریم نواز کے شیر اور پنجاب پولیس آمنے سامنے، گھمسان کا رن پڑے گا

6 اگست کو 200 کنال اراضی کی ملکیت سے متعلق طلبی پر 11 اگست کو مریم نواز کی نیب لاہور میں پیشی کے موقع پر لیگی کارکنان اور پولیس اہلکاروں کے مابین جھڑپیں ہوئیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں جانب سے ایک دوسرے کے اوپر پتھراؤ ہوا، پولیس کی جانب سے واٹر کینن اور لاٹھی چارج کی اطلاعات بھی ہیں۔ لیگی کارکنان کی جانب سے نیب دفتر پر حملہ کرنے کا الزام بھی ہے۔ اس مڈ بھیڑ میں دونوں اطراف پولیس اہلکار و لیگی کارکنان زخمی ہوئے۔ گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ جب کہ نیب دفتر کے باہر لیگی کارکنان کی موجودگی معمہ بنا ہوا ہے۔


جھڑپوں کے بعد نیب اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مریم نواز کو اکیلا طلب کیا گیا تھا جب کہ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ نیب پیشی سے پچھلی رات کو جاتی امرا میں 8 سے 10 لاکھ روپے تقسیم کیے گئے ہیں جب کہ فی کارکن 25 ہزار روپے تقسیم ہوئے ہیں۔ لیکن ان باتوں میں کس حد تک سچائی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 8 سے 10 لاکھ میں 25 ہزار کے حساب سے محض 32 سے 40 افراد کو ہی اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ کارکنان کی تعداد کافی زیادہ تھی۔


البتہ کارکنان سے متعلق مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کے بیان میں وزن ہے کہ کارکنان پہلے سے موجود تھے اور کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ خود گئے تھے۔ اس حوالے سے نیب پیشی سے قبل اپنی والدہ اور دادا جان کی قبروں پر حاضری البتہ مریم نواز کی ایک سوچی سمجھی منطق ہو سکتی ہے۔


اگست کے اس گرم مہینے میں سیاست کا پارا ہائی ہو جانا نامساعد سیاسی حالات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ یوم آزادی سے قبل عوام اور پولیس کا آپس میں گھتم گھتا ہونا نیک شگون نہیں۔ 14 اگست کا دن جو کہ آج سے دو دن بعد ہے یکجہتی، اتفاق، قانون کی بالادستی، اور بھائی چارے کا ہی پیغام دیتا ہے۔ لیکن ایسے موقع پر جب حکومت و اپوزیشن سمیت ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو اپنی ذاتی انا اور رنجشیں دور کر کے ایک ہونے کا پیغام دینا چاہیے وہاں یہ واقعہ ہماری اندرونی خلفشار کی قلعی کھولتا ہے۔


اپوزیشن کرے تو کرے لیکن حکومت وقت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سیاسی الزام تراشیوں اور حیلوں بہانوں کے بجائے حق شناسی اور حق گوئی کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب کہ قانونی پیرائے میں رہ کر بیان بازی کرنی اور اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ فیاض الحسن کا مریم اورنگزیب کے بیان ’کہ لیگی کارکنان اور پولیس اہلکاروں کے مابین جھڑپوں کے دوران مریم نواز گاڑی کے اندر بیٹھ کر کافی پی رہی تھی‘ پر یہ رد عمل کہ اس حبس و گرمی میں کارکنان نعرے بازی اور پولیس سے گتھم گتھا تھے جب کہ بیگم صفدر اعوان صاحبہ ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں سخت گرمی میں کافی پی رہی تھی۔


حالانکہ چوہان صاحب خود اسی طرح شدید گرمی میں ہی کالا کوٹ پہن کر سرکار کے پیسے سے چلنے والے ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر یہ بیان دے رہے تھے۔ تو ناپ تول کر، آگے پیچھے تناظر دیکھ کر بولنا چاہیے۔ سرکاری منصب پر بیٹھ کر اپنی سیاست کو نہیں پاکستان کو ذہن میں رکھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔


یہ واقعہ پہلا یا انوکھی نوعیت کا نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ 1999 میں بھی ایسے ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جب سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح 2014 دھرنے کے دوران پی ٹی وی اور پارلیمنٹ کیس بھی ہمارے سامنے موجود ہیں جو کہ زیادہ پرانے نہیں۔ جب پی ٹی وی کی عمارت اور پارلیمنٹ پر پی ٹی آئی اور طاہر قادری کے کارکنان نے حملہ کیا تھا۔ اور حال ہی میں مولانا فضل الرحمن نے تو وزیراعظم عمران خان کو مستعفی نہ ہونے کی صورت میں اپنے کارکنان سے  پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ خوش قسمتی انہوں نے ایسا کیا نہیں۔


علاوہ ازیں لیگی کارکنان پر نیب دفتر پر حملہ اور اس کے شیشے توڑنے سے متعلق مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق کارکنان اور دفتر کی عمارت کے درمیان کافی فاصلہ تھا جب کہ مریم نواز کے مطابق 6 سے 7 میل تک نیب دفتر کے راستے میں رکاؤٹیں ڈالی گئی تھیں اور شہریوں کو کافی مشکلات درپیش تھیں۔ پیدل چلنے پر شہری مجبور تھے۔


فیاض الحسن چوہان کی جانب سے یہ بھی الزام سامنے آیا ہے کہ مریم نواز نے نیب پر حملہ کروا کر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بقیہ سیاست کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب کہ آج کے حملے سے 1999 میں سپریم کورٹ کی عمارت پر حملے کروانے کی اپنے والد میاں نواز شریف کی یاد تازہ کی ہے۔


پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں مریم نواز کی گاڑی اور ان کے کارکنان پر ہونے والے غیر ضروری طاقت کے استعمال پتھراؤ اور آنسو گیس شیلنگ کی مذمت کرتا ہوں۔
بہرحال شہریوں اور پولیس کا ٹکراؤ نیک شگون بالکل بھی نہیں، قابل مذمت واقع ہے۔ اپنی سیاست اور انا کی خاطر اداروں کو بدنام کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جبکہ قانون کی بالادستی کو پروان چڑھانے کے لئے تگ و دو کرتے رہنا چاہیے۔ مسلم لیگ ن اور حکومت کے درمیان حالات کوئلے کے کان کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ اس پر سیاسی بیان بازی کی صورت میں چنگاری پھینکنے کے بجائے حکومت و اپوزیشن کو بیٹھ کر پرامن حل نکالنا چاہیے۔ کیونکہ ملک و حکومت کی بقا اسی میں ہے۔