وکلا گردی اور ڈاکٹر حفیظ پاشا: معاشرتی و تہذیبی افلاس معاشی بدحالی کا مظہر ہے

معروف ماہرِ معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے نئے پاکستان میں معیشت کی تباہی کی جو منظر کشی کی ہے، وہ انتہائی بھیانک اور تشویشناک ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر انتہا پسندی، عدم رواداری، لاقانونیت، اور جمہوری روایات سے انحراف کی وجہ سے جو بگاڑ پیدا ہوا ہے، اُس کے خونی مناظر کل ہم نے دیکھے جب شیر شاہ سوری کی سلطنت میں ایسے مقام جہاں پر جنگ کے دنوں میں بھی حملہ نہ کرنے کی اخلاقی روایات، مذہبی روایات اور بین الاقوامی قوانین ہیں، وہاں پر سول سوسائٹی کا ایک ایسا طبقہ حملہ آور ہوا، جس کو آئین و قانون کا پاسدار تصور کیا جاتا ہے۔ تباہی کے یہ مناظر بتاتے ہیں کہ ہماری سمت اور منزل کیا ہے۔

ایک مضمون میں ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بتایا ہے کہ غربت کی قومی شرح جو جون 2018 میں 31.3 فیصد تھی۔ جون 2020 تک بڑھ کر 40 فیصد ہو جائے گی۔ جون 2018 میں غربت کا شکار افراد کی تعداد 69 ملین تھی جو جون 2020 تک بڑھ کر 87 ملین ہو جائے گی، جوپی ٹی آئی حکومت کے پہلے دو سال میں غربت کی شرح میں 26 فیصد اضافہ یا مزید 18 ملین افراد کے خطِ غربت سے نیچے چلے جانے کو ظاہر کرتا ہے۔
تحریک انصاف حکومت کے 2 سالوں کے اختتام پر کم معاشی نمو اور دو ہندسی افراط زر کی وجہ سے مزید 18 ملین افراد غربت کا شکار ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر پاشا کے بقول پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال 8 ملین لوگ خطِ غربت سے نیچے دھکیلے گئے۔ رواں مالی سال کے اختتام تک مزید دس ملین افراد کے غربت کی لکیر سے نیچے چلے جانے کا تخمینہ ہے۔ ملک میں مہنگائی 20 فیصد تک پہنچ چکی ہے، شرح نمو صرف 3 فیصد، جبکہ دو سال میں 20 لاکھ لوگ بے روز گار ہوئے۔

ڈاکٹر صاحب کے معاشی تجزیے پر اپنے ایک بیان میں ترجمان چیئرمین پیپلز پارٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ ایک کروڑ 80 لاکھ لوگوں کے خطِ غربت سے نیچے جانے کے خدشے پر حکومت کے تمام اداروں میں خطرے کی گھنٹیاں بج جانی چاہیے تھیں۔ کسی مہذب معاشرے میں ایسی خبر آتی تو تمام جماعتیں حل نکالنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ جاتیں، یہاں حکومت مسائل حل کرنے کے بجائے گلا پھاڑ پھاڑ کر اپوزیشن پر الزام لگا رہی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے پروگرام میں من و عن شامل ہو کر اس پر عمل شروع کر دیا، آئی ایم ایف کے پروگرام پر پارلیمنٹ میں بحث نہ کرنے کا خمیازہ آج ملک و قوم بھگت رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر ہوئی مہنگائی نے متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

بڑھتی غربت، ہوشربا مہنگائی، بے روزگاری، لاقونینت اور بڑھتے اضطراب کا مرکب ملک کو مسلسل تباہی و بربادی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ اور معاشرے کو اعتدال اور تہذیب کے راستے پر واپس لانے میں چیلنجز مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ کسی بھی ریاست کو ترقی و خوشحالی پر لانے کے لئے جدید سیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی اصولوں کو اپنا کر ان پر چلنے کا عزم کرنا ہوتا ہے۔ یہ اصول تقاضا کرتے ہیں کہ آئین، قانون، جمہوری تقاضوں، پارلیمانی روایات، اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔ بدقسمتی سے اس جانب بڑھا نہیں جا رہا۔

ابھی فیاض الحسن چوہان کو بزدار حکومت کی کامیابیوں کو عوام کے سامنے لانے کی ذمہ داری اٹھائے چند ہی روز ہوئے تھے کہ شیر شاہ سوری کے دارالخلافہ میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میدان جنگ بن گیا۔ اور حکومت کے انتظامی کامیابیوں کے کھوکھلے دعوے عوام کے سامنے اصل شکل میں آ گئے۔ امن و امان قائم رکھنے اور شہریوں کو تحفظ دینے میں بزدار حکومت بالکل ناکام دکھائی دی۔ وکلا پی آئی سی کا ایمرجنسی گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئے، وکلا نے ہسپتال میں توڑ پھوڑ کی اور متعدد گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے، پولیس وین کو آگ لگا دی۔ وکلا ویڈیوز بنا بنا کر کھلے عام دھمکیاں دے رہے تھے، مال روڈ سے پی آئی سی کی طرف مارچ کرتے ہوئے موت کی دھمکیاں دیتے وکلا دکھائی دیے مگر اس صورتحال پر کنٹرول کے لئے پنجاب حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی دیکھنے کو نہ ملی۔ یہ بزدار حکومت کی ایک اور بڑی نااہلی اور ناکامی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق دل کے ہسپتال میں بروقت علاج نہ ملنے سے خاتون دم توڑ گئی، 70 سالہ گلشن بی بی ہسپتال میں زیرعلاج تھی جب پی آئی سی کے ڈاکٹر سلمان حسیب کے مطابق وکلا کے حملے کے بعد 3 سے 4 مریض جاں بحق ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ وکلا نے حملے کے دوران خاتون ڈاکٹر سمیت 4 ڈاکٹروں کے سر پھوڑ دیے۔

کل کا یہ واقعہ آئین و قانون کے تقدس کی بے حرمتی اور فاشزم کا معاشرے کی رگ رگ میں سرایت کر جانے کا اظہار ہے۔ جو انتہا پسندانہ سیاست اور جمہوریت مخالف گفتگو معاشرے  میں ہوئی ہے یہ افسوسناک واقعہ اس کی  عملی صورت ہے۔ چئیرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ٹوئیٹ میں اس کا ظہار یوں کیا ہے کہ لاہور کا افسوسناک واقعہ پنجاب کے دارالحکومت میں مکمل انارکی کی تازہ قسط ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والی پارٹی برسرِ اقتدار ہے اور ہم فاشزم کی منتقلی نیچے تک دیکھ رہے ہیں۔ اسپتال پر وکلا کا حملہ پستی کی نئی حد ہے، ایسا تو جنگوں میں بھی نہیں ہوتا، لاہور کا واقعہ مکمل احتساب کا متقاضی ہے۔ ہمیں اجتماعی احتساب کی بھی ضرورت ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عمران خان کے نئے پاکستان میں ہم بطور قوم کتنا گر گئے ہیں۔ ہم اس سے بہتر ہیں، پاکستان اس سے بہتر ہے۔

اب حالات کے جبر کا یہی تقاضا ہے کہ پاکستان اور بالخصوص اس کے فیصلہ ساز اداروں کو خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ چاہے آپ اس کو ٹرتھ اینڈ ری کونسیلیشن کا نام دیں، چاہے اداروں، سٹیک ہولڈرز کے درمیان ڈائیلاگ کا نام دیں۔ آگے بڑھنے کے لئے یہ ضروری ہے۔ جب تک آئین پسندی، جمہوری اصولوں، پارلیمانی روایات اور بنیادی انسانی حقوق کے احترام کو آگے بڑھنے کی بنیاد اور اساس نہیں بنایا جاتا، تباہی و بربادی کا سفر جاری رہے گا۔