ایران کی سپریم کورٹ کی جانب سے صحافی اور اپوزیشن رہنما قرار دیئے جانے والے روح اللہ زام کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا گیا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق سرکاری ٹی وی نے کہا کہ ملک میں حکومت کے خلاف احتجاج پر اکسانے اور تشدد کو ہوا دینے والے روح اللہ زام کو سپریم کورٹ کی جانب سے ملک کے خلاف ان کے جرائم کی سنگینی کے باعث سزائے موت برقرار رکھنے کے بعد ہفتہ کی صبح تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
عدالتی ترجمان غلام حسین اسمٰعیلی کا منگل کو کہنا تھا کہ روح اللہ زام کی سزائے موت کو ایک ماہ سے زائد عرصے قبل سپریم کورٹ نے برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
لندن کے انسانی حقوق گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں سزا کی تصدیق کے بعد روح اللہ زام کو صحافی اور مخالف رائے رکھنے والا قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا کہ روح اللہ کی سزائے موت کی تصدیق سے جبر کے ہتھیار کے بطور سزائے موت استعمال میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔
ایران کی پاسداران انقلاب نے اکتوبر 2019 میں روح اللہ زام کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ انہیں فرانس کی انٹیلی جنس سروس کی طرف سے ہدایات دی جارہی تھیں۔
سرکاری ٹی وی نے کہا کہ روح اللہ کو کئی ممالک کی انٹیلی جنس سروسز کی حفاظت حاصل تھی۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی 'اِرنا' نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ انہیں خطے میں فرانس اور دوسرے نامعلوم ملک کے لیے جاسوسی کرنے، امریکا کی دشمن حکومت سے تعاون کرنے، ملک کی سلامتی کے خلاف کام کرنے، اسلام کے تقدس کی توہین اور 2017 کے احتجاج میں تشدد کو ہوا دینے کا مجرم بھی قرار دیا گیا تھا۔
ایران میں دسمبر 2017 اور جنوری 2018 میں ملک کی معاشی صورتحال کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
روح اللہ زام کو فرانس میں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور وہ ٹیلی گرام میسیجنگ ایپ پر عمد نیوز کے نام سے چینل چلا رہے تھے۔