ملک کے چپے چپے میں آگ۔ شعلے بلند ترین۔ ہر چیز ان کی لپیٹ میں۔ آگ آگ! سب ہی چلّا رہے ہیں۔ اندھے آگ کو دیکھ سکتے ہیں۔ بہرے خطرے کا سائرن سن سکتے ہیں۔ لوگ آگ والوں کو فون پر فون لگا رہے ہیں لیکن حسبِ معمول فون مسلسل مصروف!
لوگ آگ والوں کے ہیڈ کوارٹر پہنچ جاتے ہیں۔ عملہ میٹھی نیند سو رہا ہے۔ شور شرابے سے چیف ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ لوگوں کو بتاتا ہے چلّانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ فون خود مصروف کیے کیونکہ آگ علم میں ہے۔ لیکن گاڑی میں ایندھن اور ٹینکر میں پانی نہیں۔ تنخواؤں کے پیسے تک نہیں اس لیے عملہ بھی نہیں لیکن وہ ان مخدوش حالات میں بھی ڈٹا ہوا ہے۔ ایک جرگہ تشکیل دے چکا ہے جو جلد آگ سے مذاکرات کرے گا۔ اسے دلیل اور پیار سے سمجھائے گا کہ بجھ جا۔ امید قوی ہے کہ نہ صرف بجھنے پر آمادہ ہو جائے گی بلکہ اپنا رخ ہمارے دشمنوں کی طرف موڑ کر بھارت، امریکہ، اسرائیل اور باقی ماندہ تمام قوتوں کو جلا کر بھسم کر دے گی۔
ایسا نہ ہونے کی صورت میں بھی کچھ نہیں بگڑا۔ بستر میں مرنے سے بہتر ہے کہ آگ میں جل کر مرا جائے۔ یہ کہہ کر وہ ایک فری پمفلٹ ہر ایک کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے جس کے مطابق سب علما متفق ہیں کہ آگ میں جل کر مرنے والا شہید۔ نہ صرف اس کے تمام کبیرہ و صغیرہ گناہ بلکہ اس کی موجودہ، پچھلی اور اگلی نسل کے بھی معاف۔
یہ مزاح نہیں! ہمارے پاس دہشت گردی کے جن کو قابو کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور حکمت عملی ہے ہی نہیں۔ ہمیں امریکہ بہادر نے بتایا کہ عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ افغانستان کے حاکم طالبان ہیں۔ ایک عالمی اتحاد تشکیل دیا۔ چند ماہ نہیں، بیس برس تک لڑے۔ انتہائی عبرت ناک شکست ہوئی۔ طالبان کو گلے لگایا اور دم دبا کر بھاگ گئے اپنے بزرگوں برطانوی اور روسی سامراج کی طرح۔ پھر ثابت ہوا کہ افغانستان ہی حقیقی معنوں میں سپر پاورز کا قبرستان ہے۔
جناح کی طرح میرے پاس بھی چودہ نکات ہیں جو اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ اب کے جہاد نئی بلندیوں پر ہو گا:
1۔ پاکستان ڈیفالٹ کے نزدیک
2۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی بغاوت کمزور سے مضبوط ترین
3۔ بھارت آرٹیکل 370 سے جان چھڑانے کے بعد گلگت بلتستان ہڑپ کرنے کا خواہش مند
4۔ علی کرد، منظور پشتین اور محسن داوڑ قوم پرستوں میں نیا جذبہ پھونکنے میں کامیاب
5۔ مقدس ہستیاں نہ صرف شدید تنقید بلکہ عوامی گالیوں کی زد میں۔ آئے دن ان کی بدعنوانی کے نئے نئے قصے سوشل میڈیا کی زینت
6۔ سیلاب سے متاثر لاکھوں لوگ بے یارومددگار۔ نہ سر پر چھت، تن پر کپڑا، دوا دارو، روٹی اور پانی ندارد
7۔ کمر توڑ مہنگائی سے اب اشرافیہ بھی عاجز۔ مڈل کلاس تین کے بجائے دو وقت کے کھانے پر
8۔ کووڈ کے عذاب کی موجودگی میں ڈینگی کا شر۔ رواں برس 1600 لوگ ڈینگی سے ہلاک
9۔ امریکہ اور اس کے حواری دہشت گردی کا گڑھ افغانستان طالبان کو سونپ کر فرار
10۔ عالمی معیشت کساد بازاری کی طرف۔ اب ڈالروں کی وہ برسات ختم جو پاکستان پر دہشت گردی ختم کرنے کے لئے برسائی جاتی تھی
11۔ پاکستان میں ہر مولوی اور شدید نظریات کا حامل خوش کیونکہ افغانستان اب سرعام اسلامی سزائیں نافذ کر چکا ہے۔ کل پرسوں عوام کے سامنے قاتل کو مارا اور درجنوں زانیوں کو کوڑے بھی لگائے۔ جو کام مرد مومن ضیاء الحق نہ کر سکا وہ اس کی اولاد طالبان نے کر دکھایا۔ اب اس قسم کا اسلام تیزی سے پاکستان میں بھی پھیل رہا ہے۔ (نوے کی دہائی میں کسی پاکستانی صوبیدار کا بیٹا قتل ہوا۔ قاتل افغانستان فرار ہو گیا۔ ملا عمر نے باپ کو افغانستان بلایا۔ باپ نے بھرے مجمع میں قاتل کو گولی ماری۔ پاکستانی اخبارات نے صفحہ اول پر تصویر شائع کی۔ اس دن سے یہ شریعت پاکستان میں خوب پھل پھول رہی ہے۔ اب مزید پھیلے گی۔)
12۔ علما اور سیاست دان اس قابل بھی نہیں کہ معصوم لوگوں کے قتل کی مذمت کر سکیں۔ 6 دسمبر کو بنوں میں ٹی ٹی پی کے درندے ایف سی سپاہی کے گھر میں گھسے۔ اسے بیٹے سمیت قتل کیا۔ پھر اس کا سر کاٹ کر باہر درخت سے لٹکا دیا۔ تاویل یہ کہ ایسا کرنا شرعی کیونکہ یہ حکومت پاکستان کا ملازم تھا۔ ماشاء اللہ۔ اب سب سرکاری ملازمین تیار رہیں اس قسم کی شہادت کے لیے! کون لڑے گا ان دہشت گردوں سے جب اس قسم کے واقعات لوگوں کو ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دیں گے؟ سیاست دانوں کی 'کھیڈیں' ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ وہ آپس میں چور چور کھیل رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی جے یو آئی ایف کے درجنوں لیڈروں کو شہید کر چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمن المعروف ڈیزل میں اتنا دم خم بھی نہیں کہ اس ناحق خون کی مذمت کر دیں۔ ان کی سب توانائیاں اب بلوچستان میں اپنا سیاسی اثر پھیلانے میں صرف ہو رہی ہیں۔
13۔ فوج پہلے ہی لائن آف کنٹرول اور بلوچستان میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارا وقت اس نظریے کی ترویج میں صرف کر رہی ہے کہ وہ اب 'غیر سیاسی' ہو چکی ہے۔ لیکن لوگوں کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ یقین ہی نہیں کر رہے!
14۔ مذاکرات اور فوجی آپریشن دونوں ہی کر کے دیکھ لیے۔ لیکن یہ ٹی ٹی پی والے اتنے ڈھیٹ ہیں کہ اب بھی بے مزہ نہیں ہو رہے۔
حتمی نتیجہ:
ٹی ٹی پی کوئی چوروں کا گینگ نہیں کہ دو چار پولیس مقابلوں میں سب کو جنت کی سیر کرا دی۔ یہ ایسا نظریہ ہے جو عوام اپنا چکی ہے۔ اس نظریے کی داغ بیل اسی دن پڑ گئی تھی جب 70 میں آئین میں ترمیم کر کے احمدیوں کو کافر قرار دے دیا گیا تھا۔ اس دن سے آج تک ہر اس قانون، ایکٹ، نظریے، کلچر سے جان چھڑانی پڑے گی جس کی بدولت معاشرے میں شدت پسندی، فرقہ واریت، اقلیتوں سے نفرت، عورتوں اور بچوں پر ظلم، آزادی رائے پر پابندیاں، آمریت سے الفت، اداروں کو کھوکھلا کرنے جیسے عوامل ریاستی سرپرستی میں بام عروج پر پہنچے اور اب روزانہ کی بنیاد پر نئی نئی بلندیاں سر کر رہے ہیں۔
اس ملک کو ایک نیا قانون درکار ہے جس کی رُو سے مذہب کسی بھی شہری کا ذاتی معاملہ ہو، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ لفظ 'اقلیت' سے جان چھڑائی جائے۔ سب شہری برابر سمجھے جائیں۔ اگر اتنا بھی نہ ہوا تو ملک میں خاک و خون کے کھیل کے سوا اور کچھ بھی نہ بچے گا!
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔