Get Alerts

فیض یابی کا دور ختم، عمران خان کے مقابلے میں منجھے ہوئے کھلاڑی، سیاست کتنی آتی ہے؟ اصل امتحان اب شروع

فیض یابی کا دور ختم، عمران خان کے مقابلے میں منجھے ہوئے کھلاڑی، سیاست کتنی آتی ہے؟ اصل امتحان اب شروع
صحافی حسن ایوب خان نے کہا ہے کہ ''فیض یابی'' کا دور ختم ہونے کے بعد عمران خان کو اپنے بل بوتے پر سب کچھ کرنا ہے۔ ان کے مقابلے میں منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ اصل امتحان تو اب شروع ہوگا کہ وہ سیاست کو کتنا جانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خرابی گذشتہ سال اکتوبر سے شروع ہوئی تھی لیکن اب عمران خان کیلئے فیض یابی دور کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ اب انھیں اپنے بل بوتے پر اور بیساکھیوں کے بغیر اپنی حکومت کا تسلسل جاری رکھنا ہے۔ اب ان کیلئے حقیقی امتحان شروع ہو چکا ہے کہ وہ سیاست کو کتنا جانتے ہیں اور کون سی سیاسی چالیں چل سکتے ہیں۔

سینئر صحافی عامر غوری نے کہا ہے کہ حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا انحصار چودھری برادران اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے درمیان ملاقات میں ہے۔ چودھریوں نے ہاں کردی تو پھر کامیابی ہی کامیابی ہے۔

ملک کی صورتحال، سیاسی جوڑ توڑ اور اہم ملاقاتوں بارے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت مخالف لوگ اپنی طاقت دکھانے کیلئے اکھٹے ہو رہے ہیں۔ لیکن چودھری برادران اور مولانا فضل الرحمان کو اچھی طرح پتا ہے کہ اصل پاور ان کے پاس نہیں ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے عامر غوری کا کہنا تھا کہ دوسری جانب حکومت بھی پوری طرح پراعتماد ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں جن کا انھیں سہارا ہے، وہ اقتدار کی ٹرالی میں کھڑے رہنا چاہتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ زرداری صاحب تو کہہ رہے ہیں کہ ہم اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے بالکل ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں تاریخ دیدیں لیکن چودھری برادران اور شہباز شریف کے درمیان ملاقات کے بعد ہی طے ہوگا کہ یہ قافلہ چلے گا یا نہیں۔

انہوں نے اپنا سیاسی تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ چودھری برادران کو پتا ہے کہ جہانگیر ترین کی صورت میں پنجاب کی سیاست کیلئے ایک مضبوط امیدوار موجود ہے۔ تاہم مجھے نہیں لگتا کہ شریف برادران انھیں شاید کچھ زیادہ دے سکیں۔ بات یہی ہے کہ اگر چودھریوں نے ہاں کر دی تو معاملہ حل ہو جائے گا۔

خیال رہے کہ ایم کیو ایم کے بعد حکومت کی ایک اور جماعت مسلم لیگ ق کی قیادت سے شہباز شریف کی ملاقات طے پا گئی ہے۔ گذشتہ دنوں مسلم لیگ ن کی جانب سے رابطہ کیا گیا تھا کہ شہباز شریف، چودھری برادران سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔

بالاخر اب یہ ملاقات طے ہو چکی ہے۔ شہباز شریف 13 جنوری بروز اتوار کو چودھری برادران کی رہائش گاہ پر تشریف لے جائيں گے۔

پروگرام میں شریک گفتگو عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ حکومت کیخلاف تحریک اعتماد لانے کیلئے بھرپور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ''فون کالز'' آ جاتی ہیں۔ سگنلز ابھی تک واضح نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔

عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ حکومت کیخلاف محاذ تیار کرنا اپوزیشن کیلئے ایک جوئے کی طرح ہے کیونکہ انہوں نے پہلے جب بھی پی ٹی آئی حکومت کیخلاف کچھ کرنے کی کوشش کی، انھیں شکست کا ہی سامنا کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اگر واقعی میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہے تو متحد رہنے میں ہی ان کی بقا ہے۔ جو حالیہ کوششیں کی جا رہی ہیں وہ اسی بات کا انڈکیشن ہیں۔

حسن ایوب خان نے پروگرام کے دوران اپنا مختلف تجزیہ پیش کوتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور چودھری برادران دونوں اناڑی نہیں۔ یہ دونوں بیٹھیں گے تو کچھ لین دین تو ہوگا کیونکہ سیاست نام ہی بند گلی سے راستے تلاش کرنے کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ مولانا صاحب، چودھری برادران کو کم پر منا لیں یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں کوئی بڑی چیز دینی پڑ جائے۔ یہ اب اس پر منحصر ہے کہ سودے بازی کس طرح ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ آج بھی ''پشاور'' سے مشورے لئے جا رہے ہیں لیکن یہ طریقہ کار مہنگا پڑ سکتا ہے کیونکہ ڈسپلنڈ قومی ادارے میں چیزیں صرف طریقہ کار سے ہی چلتی ہیں۔

حسن ایوب خان کا کہنا تھا کہ واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ ہم پیچھے ہٹ جاتے اور خاموش ہو جاتے ہیں، آپ اپنی حکومت بچا سکتے ہیں تو بچا لیں۔ دوسری جانب نواز شریف، زرداری اور مولانا فضل الرحمان سیاست کے کھیل کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں جنھیں سیاست کرنی آتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج تک پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس مرتبہ لگتا ہے تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔ جب ایک حکومت کو آئینی طریقے سے بے دخل کیا جائے گا۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے ٹوٹنے سے عمران خان کو نئی زندگی ملی تھی لیکن آج کی صورتحال میں لگتا یہی ہے کہ شطرنج پر رکھے مہروں میں سے زیادہ اپوزیشن کے ساتھ ہی ہیں۔ عمران خان کے حالات دست شفقت سے محروم ہونے کے بعد خراب ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان پریشان کن سیاسی حالات میں وہ کوشش تو کر سکتے ہیں کہ شہباز شریف یا جہانگیر ترین کو گرفتار کرا دیں لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیونکہ اتحادیوں کو جس ایلفی سے جوڑا گیا تھا وہ اب ٹوٹ رہی ہے۔