تحریر: ( قیصر جاوید) جموں کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف اکثر حالات کشیدہ ہی رہتے ہیں لیکن الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا پر زیادہ تر بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں جاری ظلم و ستم پر مبنی ہی خبریں چلائی جاتی ہیں۔ جبکہ پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کو بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ پاکستانی ریاستی بیانیہ ہے جو کہ میڈیا جسے آزاد ہونا چاہیے اس میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ میڈیا وہی بولتا ہے جو اسے بتایا جاتا ہے۔
حال ہی میں پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر میں مختلف قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج ہوئے ہیں اور ان میں سے چند لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ ان تمام معاملات پر نہ تو پرنٹ میڈیا نے کوئی خبر چھاپی اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا نے کوئی رپورٹ پیش کی۔ اس بدترین سنسرشپ میں لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ تمام مسائل اس وقت شروع ہوے جب جموں کشمیر سٹوڈنٹ لبریشن فرنٹ(سردار صغیر گروپ) کا سالانہ کنویشن راولاکوٹ میں منعقد کیا گیا۔ اس کنوینشن میں لبریشن فرنٹ گلگت بلتستان زون کے لوگ بھی شریک ہوئے اور کچھ ترقی پسند لاہور سے بھی مدعو تھے۔ کنونشن میں شرکاء نے کشمیر کی خودمختاری اور سیاسی جدوجہد کا تہیہ کیا۔ ساتھ ہی ساتھ آجکل مظفرآباد میں چلنے والی “دریا بچاو” تحریک کی بھی کھل کر حمایت کی۔
مظفرآباد میں دریا بچاو تحریک کا مقصد نیلم جہلم دریا کے بہاو کی پرانے راستے سے بحالی ہے تاکہ مظفرآباد میں جو اس دریا کا رخ موڑنے کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں ان پر قابو پایا جا سکے۔
یہ وہ تمام محرکات ہیں جو کارکنان کی گرفتاری کا باعث بنے جب یہ کنونشن اختتام پذیر ہوا تو مقامی پولیس اسٹیشن نے بغاوت اور ملک دشمنی کی دفعات شامل کرتے ہوے تقریباً ایک سو کے قریب کارکنان پر ایف آئی آر درج کر دی۔
اگلے ہی دن توقیر اسحاق ( صدر جے کے ایل ایف راولاکوٹ) اور صدام حیات کو راولاکوٹ سے گرفتار کر لیا گیا۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ مقامی پولیس کا اس سب سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ وہی لوگ کروا رہے ہیں جو بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں انسانیت سوز مظالم میں شامل ہیں۔ اگلے ہی دن ان تمام لوگوں کی گرفتاری کے خلاف جب قوم پرست جماعتوں نے کشمیر کے تمام بڑے شہروں میں مظاہرے کیے تو ان پر بھی مقدمات چلائے گے۔ کوٹلی سے جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے مزید دو کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان تمام کارکنان کو تقریباٍ چھ دن حوالات میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں جب میری بات جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چئرمین سردار صغیر صاحب سے ہوئی تو ان کا کہنا تھا کے اس میں مقامی انتظامیہ کو استعمال کر کہ احکامِ بالا اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی پرامن سیاسی جدوجہد کشمیر کی خودمختاری کے لیے بلا کسی خوف کے جاری رکھیں گے۔ ان کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ ریاستی جبر پاکستان زیر انتظام کشمیر میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور میڈیا پر اس بارے میں بالکل بات نہیں ہو رہی۔
اگر ہم پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں موجود حکومت کی بات کریں تو ان کی باگیں بھی پاکستان سے ہی کھینچی جاتی ہیں۔ بلکہ اقتدار ہی انھیں لوگوں کو سونپا جاتا ہے جو جی حضوری کے عادی ہوں۔
ایک طرف تو ریاست پاکستان، کشمیر کے لوگوں کے حق خودارادیت کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف جب کوئی کشمیری اس کا اعلان کرتا ہے تو اسے بغاوت جیسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر آنے والی رپورٹ میں بھی اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان زیرِ انتظام کشمیر میں آزادی اظہارِ رائے اور سیاسی آزادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ میڈیا پر بھارتی انتہا پسندی کی خبریں تو زور و شور سے چلائی جا رہی ہیں لیکن پاکستان زیر انتظام کشمیر میں جو ظلم ہو رہا ہے اس پر بالکل بات نہیں ہو رہی۔
کشمیر میں موجود اگر یہی جبر چلتا رہا تو حالات بگڑ سکتے ہیں اس لیے میری “صاحب اقتدار” لوگوں سے گزارش ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ ایسا سلوک بند کریں اور ان کی بنیادی انسانی آزادیاں سلب نہ کریں۔