کیا کشمیری عوام اور سیاسی قیادت بھارت سے نجات کے لئے پاکستان سے امید کھو چکے؟

کیا کشمیری عوام اور سیاسی قیادت بھارت سے نجات کے لئے پاکستان سے امید کھو چکے؟
گزشتہ دنوں جناب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے پاکستان کے سیاسی نقشے کو ایک بار پھر خبروں میں لانچ کیا ہے اور انکی جانب سے بنائے جانے والے بیانیے کے مطابق پاکستان کا یہ سیاسی نقشہ، ستر سالوں میں کسی بھی پاکستانی حکومت اور قیادت کی جانب سے کی جانے والی پہلی اور سب سے زیادہ دلیرانہ پیش رفت ہے کہ شاید کسی بھی رہنما اور کسی بھی حکومت کو یہ جرات با سعادت شاید ہی نصیب ہوئی ہو۔ ان دعووں کی دھجیاں بکھیرنے کے لئے سوشل میڈیا پر کئی صحافیوں، دانشوروں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے بہت کچھ لکھا ہے اور بادی النظر میں اولین شجاعت کا یہ حکومتی دعویٰ کم از کم متنازعہ ہے۔
تاہم اس سے زیادہ اہم اور غور طلب بات ہے کہ آیا پاکستان کی سیاسی حمایت کشمیر کا خطہ اسکے جغرافیائی حدود اربعہ اور خد و خال حاصل کرنے کے لئے ہے؟ یا پھر وہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی اہمیت اور فضیلت کو مقدم سمجھتے ہوئے کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق وادی کشمیر کا سیاسی مستقبل طے کرنے پر یقین کرتا ہے۔

یہی وہ نکتہ ہے جو پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے بڑی فصاحت کے ساتھ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پاکستان کا ہے نہ ہی ہندوستان کا وہ کشمیریوں کا ہے۔ وہی فیصلہ کریں گےکہ کشمیر کو کس کا حصہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پالیسی یہ ہونی چاہیئے کہ کشمیری رائے سازی کے ذریعئے یہ بتائیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اور یہی راستہ غاصب نریندر مودی کو جواب دینے کا ہے۔ انہوں نے واضح کہا کہ پاکستانی حکومت کے بیانیئے کے متضاد کشمیری عوام پاکستان کی جانب نہیں دیکھ رہے ہیں۔
اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ اس بابت غور کیا جائے کہ کشمیری عوام اور ان کی نمائندہ سیاسی قوتیں کیا پاکستان کی جانب دیکھ رہی ہیں؟ کیا وہ پاکستان کو بھارت کے خلاف انکا نجات دہندہ سمجھتی ہیں؟ اور اگر واقعی ایسا نہیں ہے تو یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور کشمیر پالیسی کے لئے بہت ہی خطرناک ہے۔ خصوصی طور پر گذشتہ سال سے بھارت کی جانب سے کشمیر کو اپنا حصہ بنایا ہے اس کے بعد تو کشمیری عوام کا پاکستان کے ساتھ ہونا یا نہ ہونا بہت ہی اہمیت کا حامل ہوچکا ہے۔
سینئر صحافی حامد میر نے اسی حوالے سے ایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے جو نکتہ اٹھایا ہے وہ یہی ہے اور اس پر انکا نکتہ نظر ہے کہ کشمیر کی قیادت اور عوام پاکستان کی ریاست اور سیاسی قیادت کے خالی خولی نعروں سے اوب چکی ہے اور وہ شاید پاکستان سے بے زار ہو چکے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ابھی نندن کو واپس بھارت بھجوانے کے بعد کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن سے یہ تاثر ملا کہ پاکستان نے تو بھارت کو خوش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بھارت نے پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری سمجھ کر ایسا رویہ اختیار کیا جو کوئی حاکم کسی محکوم کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ بھارتی پائلٹ کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ چائے پلا کر واہگہ کے پار بھجوانے کے چند ماہ کے بعد نریندر مودی کی حکومت نے 5؍اگست 2019کو بھارتی آئین کی دفعہ 370اور 35اے ختم کرکے جموں و کشمیر پر باقاعدہ قبضہ کر لیا۔

اس واقعے کے بعد پاکستان میں دو مطالبات بڑی شدت کے ساتھ سامنے آئے۔ پہلا یہ کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے لئے اپنی فضائی حدود کو بند کر دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان شملہ معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرے لیکن پاکستان کی طرف سے مودی کو نازی ہٹلر کا دوسرا روپ قرار دینے کے علاوہ کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا۔
9؍نومبر 2019کو یومِ اقبال کے دن کرتار پور راہداری کھولی گئی جس کا بھارت کی سکھ برادری نے خیر مقدم کیا لیکن نریندر مودی کی حکومت نے اس کا خیر مقدم نہیں کیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ 13؍جولائی 2020کو یومِ شہدائے کشمیر پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے واہگہ بارڈر کھولنے کا اعلان کر دیا۔
4؍اگست کو جب دفتر خارجہ میں حکومت کی طرف سے مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ایک بریفنگ دی جا رہی تھی ، عین اُسی وقت اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کشمیر پر ایک علیحدہ مجلس مشاورت کی میزبانی کر رہے تھے جس میں آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان سمیت آل پارٹیز حریت کانفرنس کی قیادت بھی موجود تھی۔
اس مجلس میں سید علی گیلانی کے قریبی ساتھی عبداللہ گیلانی سے لے کر شمیم شال تک مختلف کشمیری رہنمائوں نے جس لب و لہجے میں گفتگو کی اُس میں شکوے سے بڑھ کر احتجاج نمایاں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اربابِ اختیار کو اس ناچیز کے یہ الفاظ اچھے نہ لگیں لیکن سچ یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت نے صرف پاکستان اور اس کے عوام کی محبت میں اپنی زبانوں کو لگام دے رکھی ہے، بند کمروں میں جب وہ کپکپاتے ہونٹوں اور چھلکتی آنکھوں کے ساتھ اپنا دل نکال کر ہتھیلی پر رکھتے ہیں تو اپنے آپ پر ماتم کے سوا کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ یومِ استحصالِ کشمیر پر پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کی بہت مذمت کی لیکن اس کے باوجود کشمیری قیادت اور پاکستانی حکمرانوں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے اور عدم اعتماد کی یہ فضا محض ترانے ریلیز کرنے اور سڑکوں کے نام بدلنے سے ختم نہیں ہوگی۔

حامد میر نے اس سے آگے اپنی جانب سے مسئلہ کشمیر کو لے کر بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیئے کئی مشورے دیئے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائے۔ تاہم میر صاحب نے وضاحت نہیں کی، کہ لڑکھڑاتی معیشت، خوانخوار سیاسی ماحول اور مفلوج طرز حکمرانی کے ساتھ پاکستان اپنی کسی بھی پالیسی میں جارحانہ پن کیسے لے آئے؟ اس حکومت کے ہوتے ہوئے کہ جس کے سربراہ جناب عمران خان نے ابھی نندن کے وقت معصومانہ انداز میں اسمبلی کے فلور پر پوچھا تھا کہ اپوزیشن بتائے میں کیا کروں ؟ کیا بھارت کو بم مار دوں؟