Get Alerts

بلاول بھٹو کا نوجوان سیاسی قیادت والا بیانیہ کام دکھائے گا؟

بلاول جیسا نعرہ عمران خان نے بھی لگایا تھا مگر فرق یہ تھا کہ وہ اپنی بزرگی کی قیادت میں نوجوان نسل کا بیانیہ لے کر آئے تھے اور جیسے ہی انتخابات کا وقت آیا تو انہوں نے نوجوانوں کو سٹیج سے اٹھا کر کہا کہ ان بزرگ پگوں والوں یعنی الیکٹ ایبلز کو جگہ دی جائے اور پھر ان کی سیاست کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔

بلاول بھٹو کا نوجوان سیاسی قیادت والا بیانیہ کام دکھائے گا؟

بلاول بھٹو آج کل نئی نوجوان سیاسی قیادت کے بیانیے کو لے کر چل رہے ہیں۔ یہی بیانیہ انہوں نے ایوان میں بحیثیت وزیر خارجہ بھی دیا تھا جو خوش آئند ہے۔

اس کے لیے روایتی سیاست کو چھوڑ کر نئی طرز کی سیاست کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے پرانے بابوں کو بند کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ عوام کو نئی اور جدید سوچ سے مرغوب کر کے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جدید جمہوری ریاستوں کا انداز سیاست اپنانا ہوگا جس میں سیاسی جماعتوں کی قیادتیں اپنے منشور اور کارکردگی کے ساتھ میڈیا پر براہ راست عوام کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور ان کے درمیان مکالمہ بھی ہوتا ہے جسے پوری قوم سن رہی ہوتی ہے۔

اس کے لیے بلاول بھٹو صاحب کو اپنے عمل سے اپنی جماعت کے اندر وہ ماحول بنانا پڑے گا جس سے نوجوان قیادت کی جھلک ملے۔ ان کو اپنی جماعت میں سے تمام پگوں والے سیاست دانوں کو اٹھا کر نوجوان نسل کو جگہ دینی ہو گی۔ بلکہ موروثی سیاست کو بھی خیر باد کہہ کر پہلے جماعتوں کے اندر جمہوریت کو فروغ دینا ہوگا جس میں نوجوان قیادت کی روایت کو جمہوری اقدار اور اصولی سیاست کے ذریعے سے جماعت میں ڈال کر مثال قائم کرنا ہو گی تا کہ دوسری جماعتیں ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے مجبور ہوں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان تمام پگوں والوں (الیکٹ ایبلز) کی قیادت ان کے ہاتھ میں دے کر ایک نوجوان قیادت کے بیانیے کو تسلیم کر لیا جائے تو ایسا کسی طرح سے بھی مناسب نہیں اور اگر وہ محض بابوں کی سیاسی غلطیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ کر موروثی سیاست والے تمام مفادات کے ساتھ سیاست کرنا چاہتے ہیں تو یہ وہ پہلے بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ان کے ماضی قریب میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات اور اس کے نتائج میں بننے والی میئرشپ ہے جس میں تمام تر روایتی بندوبستوں کے ذریعے سے نوجوان قیادت کو متعارف کروایا گیا۔

بلاول جیسا نعرہ عمران خان نے بھی لگایا تھا مگر فرق یہ تھا کہ وہ اپنی بزرگی کی قیادت میں نوجوان نسل کا بیانیہ لے کر آئے تھے اور جیسے ہی انتخابات کا وقت آیا تو انہوں نے نوجوانوں کو سٹیج سے اٹھا کر کہا کہ ان بزرگ پگوں والوں یعنی الیکٹ ایبلز کو جگہ دی جائے اور پھر ان کی سیاست کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔

اگر بلاول اس نوجوان سیاسی قیادت کے بیانیے سے محض تحریک انصاف کے نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتے ہیں تو ایسا بھی ممکن نظر نہیں آ رہا کیونکہ تحریک انصاف کے نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کی شرط عمر نہیں بلکہ ان کا مطلوبہ مزاج ہے جس کی وہ خود پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر مذمت کرتے رہے ہیں۔ اس مزاج کے لوگ ان کی جماعت پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں گئے تھے اور اب وہ ان کی طرف واپس لوٹنے کے بجائے اپنا شیلٹر آئی پی پی اور دوسری جماعتوں کو بنا چکے ہیں۔

اگر وہ نئی آزمائش کی بنیاد پر حکومت کے حصول کے خواہ ہیں جس کا وہ اظہار کر رہے ہیں تو ایسا اب ممکن نہیں بلکہ ان کی جماعت 2013 میں یہ موقع حاصل کر چکی ہے اور سندھ میں تسلسل کے ساتھ ان کو یہ موقع فراہم رہا ہے لہٰذا اب اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کو اپنی طرف مرغوب کرنا ہو گا۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کمزور معیشت کا ہے۔ اگر ان کے پاس کوئی ایسی معاشی حکمت عملی ہے جس سے ملک کی تقدیر کو بدلا جا سکتا ہو تو اس کو عوام کے سامنے پیش کریں۔ یہ آزمائش کا نعرہ 2018 کے انتخابات میں بھی لگایا گیا تھا کہ تحریک انصاف کو آزمایا جائے اور سادہ لوح لوگوں نے اس پر کان دھر لئے اور یوں نئے چہرے آزمانے کی سیاست کی گئی لیکن اب پاکستان کی معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اب ہمیں کسی تجربہ کار اور ماضی میں اچھی کارکردگی رکھنے والی شخصیت یا جماعت کو اقتدار سونپ کر ملک و قوم کی تقدیر کو بدلنے کی راہ پر گامزن ہونا ہو گا۔

اگر کوئی اس راستے پر چلتے ہوئے سیاست کرنا چاہتا ہے تو اسے سیاست کو اقتدار کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ ملک و قوم کی خدمت کا حصول بناتے ہوئے سیاست کرنا ہو گی۔ سیاست اور ریاست کو چلانے کا کام عمروں سے نہیں بلکہ تجربوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اب ملکی سیاست اور معیشت کا تقاضا ہے کہ ہر کسی کو اپنے عوامی مینڈیٹ کے مطابق جہاں بھی جگہ ملے، ملک و قوم کی خدمت کر کے پہلے اپنے پلڑے میں اچھی کارکردگی کو ڈالے تا کہ وہ عوام کو کچھ دکھانے کی پوزیشن میں ہو۔ ملک و قوم کی خدمت محض اقتدار میں ہی نہیں بلکہ اپوزیشن میں رہ کر تعمیری تنقید اور مثبت حلیف کے طور پر بھی کی جا سکتی ہے جس کا ایک اچھا ثبوت پچھلے سالوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے دیا بھی ہے۔

اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے جمہوری اقدار اور اصولی سیاست کی روایت کو لے کر تمام سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنا ہوگا اور عوام کو سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے قول و فعل اور کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اپنے قیمتی ووٹ کے حق کو استعمال کرنا ہو گا۔ اب جھوٹے وعدوں اور سبز باغ دکھانے کی سیاست کی نفی کرتے ہوئے سنجیدہ سیاست کی روایت ڈالنی پڑے گی جس کی بنیاد اعلیٰ اخلاقیات اور سیاسی شعور ہو، نہ کہ دھوکہ دہی اور مفاداتی سیاست۔ عوام کو مخلص سیاسی قیادت کا ساتھ دے کر سیاست کے نئے باب کا آغاز کرنا ہو گا۔

اس کے لئے سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو اپنی مستقبل کی سیاست کا منشور اور اپنی سابقہ کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھنا ہوگا تاکہ عوام ان کے اندر ایک تقابلی جائزہ کرتے ہوئے ووٹ دینے کا فیصلہ کر سکیں۔

اب بے بنیاد الزامات کی سیاست کرنے کا وقت نہیں اور نہ ہی جھوٹے بیانیوں اور کھوکھلے سیاسی نعروں سے عوام کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ ان کے اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن پر الزامات کے حملوں سے اچھے تاثرات نہیں ابھر رہے۔ بلاول بھٹو کو اپنے ایسے بیانیوں پر ردعمل سے کچھ سیکھتے ہوئے مفاہمتی اور مدبرانہ سیاست کی طرف بڑھنا ہوگا۔

انہوں نے 17 ماہ تک پی ڈی ایم کے ساتھ حکومت کی ہے اور خارجہ، انڈسٹری، کامرس، موسمیات اور صحت سمیت کئی اہم وزارتوں کے قلمدان ان کے پاس تھے اور اُس وقت اگر وہ شہباز شریف کی تعریفیں کرتے رہے ہیں تو پھر آج مہنگائی کا سارا ملبہ ان پر ڈال کر عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے وہ اپنا دامن عوامی قہر سے نہیں بچا سکتے۔ اس کے لئے کسی غیر جانبدار اینکر پرسن کی موجودگی میں شہباز شریف کے ساتھ براہ راست میڈیا پر مکالمہ کرنا پڑے گا تاکہ عوام بھی ان کے سیاسی مؤقف کو جان سکیں اور شہباز شریف بھی اپنا مؤقف دے سکیں۔

عوام کی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی مشکلات اپنی جگہ موجود ہیں اور ان کا جواب عوام کو چاہئیے۔ اس کا جواب محض زبانی دعوؤں سے نہیں بلکہ عملی کارکردگی سے دینا ہوگا۔ اب کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ ان کو خدمت کا موقع نہیں ملا۔ اب بے بنیاد الزامات کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہئیے اور صحیح عوامی فلاح و بہبود کا عملی ثبوت دیتے ہوئے عوام کے سوالوں کا جواب دینا ہوگا جو ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب موقعوں اور مفادات کی سیاست نہیں بلکہ کارکردگی کی سیاست کرنا ہو گی۔