ریاستی اداروں پر بے جا تنقید اور الزامات کی سیاست ختم ہونی چاہیے

اداروں کو بے جا تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے شواہد کے ساتھ ان کی غلطیوں کی نشاندہی کر کے ان کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے چہ جائیکہ ان کو بے جا تنقید سے غیر فعال بنا کر ریاست کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جائے۔ اداروں کو بھی چاہئیے کہ وہ کسی فرد واحد کی خاطر اپنی ساکھ کو داؤ پر نہ لگنے دیں۔

ریاستی اداروں پر بے جا تنقید اور الزامات کی سیاست ختم ہونی چاہیے

ہماری سیاست کا وطیرہ بنتا جا رہا ہے کہ اگر کسی سیاست دان کو کہیں سے جائز ریلیف بھی ملتا ہے تو اس پر انگلیاں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں اور اگر کسی پر قانون کی پکڑ آتی ہے تو اداروں پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ انتشار پسندی اور الزامات پر مبنی سیاست کا بزدلانہ اور منافقانہ بیانیہ عوام میں اس قدر مقبولیت پکڑ چکا ہے کہ سیاست کا سنجیدہ معاملہ ایک تماشہ بن کر رہ گیا ہے۔ اس کی کئی وجوہات میں سے دو بنیادی وجوہات مفاداتی سیاست کی سوچ اور سوشل میڈیا کا بے لگام کردار بھی ہے جس میں ہمارا مین سٹریم میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ ریاست اور قوم کو اس ضمن میں سنجیدگی سے سوچ کر کوئی لائحہ عمل بنانا ہو گا۔

سیاست میں اداروں کی مداخلت کی ایک تاریخ ہے مگر اس کی آڑ میں ان کے ریاستی معاملات میں فرائض کی ادائیگی کو اس کے ساتھ گڈمڈ کر کے پیش کرنا بھی انتہائی افسوس ناک ہے جس نے اچھے برے اور صحیح غلط کی تمیز کو ختم کر دیا ہے اور ہر آئے روز یہ صورت حال مزید گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں تو اقتدار میں آتی جاتی رہتی ہیں مگر ریاست کے اداروں کو تو قائم رہ کر ملک و قوم کی خدمت کرنا ہوتی ہے۔

قوم کو اداروں کی طرف سے سیاست میں دخل اندازی اور بحیثیت ریاست کے اداروں کے قومی معاملات میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ان کے کردار کے فرق کو سمجھنا ہو گا تا کہ وہ جہاں کہیں آئینی و قانونی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے عقب میں سیاسی مداخلت ہو رہی ہے اس کی صحیح نشاندہی کر سکیں اور ان کے دعوؤں کو سنجیدہ بھی لیا جا سکے۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہو رہا تو پھر اداروں پر بے جا الزامات لگا کر ریاست کے دست و بازو کمزور نہ کیے جائیں۔ خواہ مخواہ کے بے بنیاد الزامات سے قوم اور ریاست کے درمیان اعتماد کا مضبوط رشتہ ضائع ہو جاتا ہے اور پھر اس طرح کے حساس پہلو عدم توجہی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ یہی سب کچھ آج کل ہمارا سیاسی کلچر بن چکا ہے۔ شکایات پر عمل درآمد تب ہی ہو سکتا ہے جب ان کو سنجیدہ لیا جا سکے۔ اداروں کو بے جا تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے شواہد کے ساتھ ان کی غلطیوں کی نشاندہی کر کے ان کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے چہ جائیکہ ان کو بے جا تنقید سے غیر فعال بنا کر ریاست کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جائے۔ اداروں کو بھی چاہئیے کہ وہ کسی فرد واحد کی خاطر اپنی ساکھ کو داؤ پر نہ لگنے دیں۔

الزامات کی سیاست سے تحقیقات کے بغیر چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ملک میں قانون کی حکمرانی ہو جس میں عدلیہ کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ جس ملک میں سول حقوق محفوظ ہوں اور لاء آف ٹارٹ عملی طور پر نافذ ہو وہاں لوگ سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں اور الزامات کی سیاست ختم ہو جاتی ہے۔ اگر کسی کے خلاف کوئی قومی سطح کا الزام سامنے آئے تو اس کی تحقیقات کروانا ریاست کی بھی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس امر میں تحقیقات کے بعد حقیقت کو قوم کے سامنے لائے۔ جس ادارے یا فرد کے خلاف الزام تراشی کی جا رہی ہو اس کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے الزامات لگانے والے کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرے اور عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترجیحاتی بنیادوں پر اس طرح کے قومی الزامات بارے معاملات کے فیصلے کریں تاکہ الزامات کی ثقافت کا رجحان ختم ہو سکے۔

اسی طرح ریاست کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ میڈیا کو واچ کرے اور اگر کوئی بے بنیاد الزامات لگاتا ہے یا اس میں استعمال ہوتا ہے تو اس کی تحقیق کر کے شواہد کے ساتھ معاملے کو قوم کے سامنے رکھا جائے۔ اس میڈیا چینل یا کسی وی لاگر کو تنبیہ کے ساتھ ساتھ جرمانہ کیا جائے اور اگر وہ باز نہیں آتا تو اس کے چینل کو بند کیا جائے۔

لیکن اس معاملے میں جو ضروری بات ہے وہ غیر جانبداری اور شفافیت ہے تاکہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو پائے، قوم کا اپنے ریاستی اداروں پر اعتماد بحال ہو اور عوام کی پشت پناہی کی طاقت سے ان کو مضبوطی ملے۔ اس کے لئے اعلیٰ اخلاقیات کا بھی بہت بڑا کردار ہوتا ہے جس سے اچھی سوچ کی سربراہی اور قیادت میسر آنے کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور مسائل خودبخود ہی کم اور حل ڈھونڈنا آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی مثالوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ جب جب بھی اداروں کی سربراہی اعلیٰ اخلاق والی اور ملک کو قومی سطح کی قیادت میسر رہی حالات بہتری کر طرف بڑھے حالانکہ وہی ادارے ہوتے ہیں مگر سربراہی کے بدلنے سے حالت یکسر بدل جاتے ہیں۔

اس ضمن میں ملک و قوم کی وہ سنجیدہ شخصیات جو اس طرح کے ماحول سے پریشان ہیں، ان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کی رہنمائی کے لئے آگے بڑھ کر کوئی ایسا اتحاد ترتیب دیں جو غیر سیاسی بنیادوں پر ایسے معاملات پر آواز اٹھائے اور قوم کو کوئی ماڈل دینے کی خاطر ملک میں آئین و قانون کی پاسداری کے لئے اداروں کو حرکت میں لانے کے لئے سرگرم عمل ہو۔ جہاں جہاں ان کو مشکلات پیش آتی ہیں وہ بھی ریاست اور قوم کے سامنے لائی جائیں اور ان مشکلات کے خلاف عدلیہ اور دوسرے متعلقہ فورمز سے رجوع کیا جائے۔

اس سے نہ صرف عوام میں شعور اجاگر ہوگا بلکہ قومی سطح پر ایک عملی نمونہ بھی ملے گا اور اس سے سنجیدہ سوچ رکھنے والے لوگوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی سے ان کے لئے ایک امید کی کرن پیدا ہو گی بلکہ اس سے منفی سوچ رکھنے والے اور الزامات کی سیاست کرنے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی اور وہ مستقبل میں رسوائی سے بچنے کے لئے ایسے اعمال سے باز رہیں گے۔ اس سے ہماری قومی صلاحیتیں جو غلط سمت میں استعمال ہو رہی ہیں وہ بھی محفوظ ہو کر ملکی ترقی کے لئے استعمال ہونے لگیں گی۔

اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر وہ واقعی ملک قوم کے لئے مخلص ہیں تو ان کو چاہئیے کہ سب سے پہلے اپنی جماعت کو ایسی الزام تراشی والی سیاست سے پاک کریں اور سختی سے اپنے کارکنان کو بے بنیاد الزامات کی سیاست سے باز رکھیں۔ وہ اپنے اوپر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات پر دوسروں کو لیگل نوٹسز بھیجیں اور اگر وہ باز نہیں آتے تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہئیے۔ سیاست صرف حکومت کا حصول ہی نہیں بلکہ جمہوری اقدار اور اصولی سیاست پر چلتے ہوئے قوم کو شعور دینا اور جہاں موقع ملے ملک و قوم کی خدمت کرنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے تاکہ ریاست میں تبدیلی کی اصل بنیاد معاشرت کو بھی ٹھیک کیا جا سکے۔ ایک ایسا ماحول پنپے جس میں قوم کے اندر ریاست اور اس کے اداروں کی اہمیت اور ملکیت کا احساس اجاگر ہو تاکہ ان کے اقدامات سے صرف ایک دوسرے پر اور اداروں پر تنقید ہی نہ ہو بلکہ راست اقدامات کی صورت میں حوصلہ افزائی بھی ہو تا کہ مضبوط معاشرے اور اداروں کی تشکیل سے ریاست کو طاقت بخشی جا سکے۔

اس طرح نہ صرف حالات میں بہتری آئے گی اور قوم کو بہتری کے ماڈلز ملیں گے بلکہ اس سے قوم کے اندر شعور اجاگر ہو کر وہ اداروں اور مخلص قیادت کی مدد کے لئے ان کے ساتھ آن کھڑے ہوں گے۔ اس طرح دن بہ دن حالات بدلتے چلے جائیں گے کیونکہ انسان فطرتاً نصیحتوں، تقریروں اور دعوؤں سے زیادہ عمل پر یقین کرتا ہے اور اسے قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔