پاکستانی سیاست میں جس طرح اتنے لمبے عرصے تک فوج کی مداخلت رہی ہے تو وہ ایک دم سے اے پولیٹیکل نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کی اپنی بقا کا مسئلہ ہے۔ ان کے تجربے بار بار ناکام ہوئے اور ان پر کھل کر تنقید شروع ہو گئی۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس میں مانا بھی کہ ہم مداخلت کرتے رہے ہیں مگر آئندہ نہیں کریں گے۔ میرے خیال سے اب ان کی سنجیدہ کوشش ہوگی کہ وہ سیاست سے دور ہو جائیں۔ نئے آرمی چیف کی کوشش ہوگی کہ وہ سیاست میں اپنے گھوڑوں کو نہ دوڑائیں اور منتخب نمائندوں کو پارلیمانی پروسیس جاری رکھنے دیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے معروف تاریخ دان اور پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کا کہنا تھا کہ فوج میں اندرونی اختلافات جتنے بھی ہوں مگر سبھی کمانڈرز چیف کو فالو کرتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کے اداروں میں یہ سب سے اہم تعیناتی ہوتی ہے۔ نئے چیف ضروری نہیں کہ جنرل باجوہ کی پالیسیوں کو مسترد کریں، ان میں تبدیلی بھی لا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج کے ادارے نے کریڈیبلٹی کے ساتھ باقی رہنا ہے اور اس وقت ان کی کریڈیبلٹی زیرو ہے کیونکہ انہوں نے خود مان لیا ہے اپنی مداخلت کو اور ان کا بدترین پروجیکٹ عمران خان ہے۔ آرمی بہترین ارادوں کے ساتھ بھی سیاست میں آئے تو کچھ عرصے بعد کرپٹ ہو جاتی ہے۔ جب تک نئے الیکشن نہیں ہوتے یہ سب کچھ بڑا غیر مستحکم رہے گا۔ پاکستانی فوج کو اس روش کو چھوڑنا پڑے گا جو وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان جب نہیں رہے تو بڑے اوسط درجے کے لیڈر آ گئے مسلم لیگ تتر بتر ہوگئی کئی مسلم لیگیں بن گئیں پاکستان میں شروع سے ایسی لیڈرشپ رہی نہیں جسے ملک کی مرکزی قیادت کہا جائے۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بھی جیسے بادشاہت ہی بنا لی تو پھر ان حالات میں یا تو سسٹم بیٹھ جاتا یا پھر سارے اہم کھلاڑی اکٹھے ہو جاتے تو یہی ہوا ہے۔ یہ اہم کھلاڑی اب عمران خان کو زیادہ دیر نہیں چلنے دیں گے، انہیں روک لیں گے کیونکہ اگر وہ ناکام ہو جاتے ہیں تو پاکستان اندرونی خلفشار سے نہیں بچ سکے گا۔ ہمارا کلچر اورنگزیب ماڈل آف ڈیموکریسی والا ہے، میں پاور میں ہوں تو کوئی دوسرا اس قابل نہیں ہے اور اگر میں پاور میں نہیں ہوں تو باقی سارے میرے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ایسا آئیڈیل بنا دیں جہاں کوئی نہ پہنچ سکے اور اتنا بڑا ہو کہ اس سے روگردانی کی ہزار ہا گنجائشیں ہوں۔ بات ریاست مدینہ کی کریں اور جاتے ہوئے گھڑیاں بھی بیچ جائیں۔
سینیئر صحافی عامر غوری کا کہنا تھا کہ عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ اگر اسمبلیاں چھوڑتے ہیں تو پھر دونوں صوبوں کی انتظامیہ آپ کے پیچھے پڑ جائے گی۔ اگر اسمبلیاں چھوڑتے ہیں تو سیاسی تنہائی کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ اگر اس وقت آپ نے کچھ ایسا کیا تو پھر سارے کبوتر طوطے یعنی الیکٹیبلز آپ کے پاس سے اڑ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ فواد چودھری کو ڈونلڈ بلوم کے پاس بھیج کر عمران خان نے غلطی کی۔ عمران خان خود غلطی پہ غلطی کر رہے ہیں اور اس کا خمیازہ انہیں اگلے الیکشن میں بھگتنا پڑے گا۔ اس کی ایک جھلکی ہمیں آزاد کشمیر کے بلدیاتی انتخابات میں نظر آ گئی ہے۔ ملک میں جو بنانیہ بنایا گیا ہے وہ فیک ہے، یہ سوچا گیا تھا کہ سوشل میڈیا کوئی انقلاب لے آئے گا تو وہ نہیں ہوا۔ کیونکہ اس میڈیا کے پیچھے وہی لوگ ہیں وہ غیر معیاری تعلیم یافتہ ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جو تاریخ لکھی گئی ہے وہ 'خ' سے نہیں، 'ک' سے ہے۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ آج عمران خان کی ملاقات پرویزالہیٰ سے ہونی تھی مگر انہوں نے مناسب سمجھا کہ وہ پنڈی والی تقریب میں شرکت کریں۔ پرویزالہیٰ وہاں اہم شخصیات سے ملے۔ اس کے علاوہ وہ پرویز خٹک کے ساتھ بھی ملے۔ پرویز الہیٰ اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ افغانستان میں طالبان نے نصف آبادی یعنی خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا ان کے ساتھ شاعرانہ انصاف یہی ہو سکتا تھا کہ مذاکرات کے لیے حنا ربانی کھر کو افغانستان بھیجا جائے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔