پاکستان میں بیش تر سیاسی جماعتیں ملکی قوانین پر عمل نہیں کرتیں

پاکستان میں بیش تر سیاسی جماعتیں ملکی قوانین پر عمل نہیں کرتیں
سیاسی جماعتوں میں جمہوری اقدار کا فقدان ہمارے نظام ریاست کی ایک دائمی خامی ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر مخصوص شخصیات کی اجارہ داری رکھنے والی یہ جماعتیں اپنے داخلی اور خارجی معاملات میں قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کرتی ہیں۔ ہر سال الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پتہ چلتا ہے کہ رجسٹرڈ جماعتوں کی اکثریت نے قانون میں درج طریق کار کے مطابق اپنے تصدیق شدہ اکاؤنٹس جمع نہیں کرائے ہیں۔ اسی طرح منتخب شدہ افراد بھی اپنے اثاثے ظاہر کرنے میں تساہل سے کام لیتے ہیں۔

کسی بھی بڑی سیاسی جماعت نے الیکشن قوانین کی مکمل پیروی نہیں کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پچھلے پانچ سالوں میں 125 مرتبہ سیاسی جماعتوں کو قانون کی پاسداری نہ کرنے پر نوٹس جاری کئے ہیں۔ کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے تصدیق کردہ اکاؤنٹس، جن میں ان کی آمدن، اخراجات، فنڈز کے ذرائع اور اثاثوں کی تفصیل درج ہو، کو جمع نہ کرانا الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی ہے۔ اس خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والی جماعت وفاقی یا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات لڑنے کے لیے انتخابی نشان حاصل کرنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس قانون کو کبھی بھی نافذ نہیں کیا۔

ہماری سرکردہ سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں جمہوریت متعارف کرانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنے منشور کے مطابق داخلی طور پر انتخابات بھی نہیں کراتیں، حالانکہ قانون اُنہیں ایسا کرنے کا پابند کرتا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت بھی انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی زحمت نہیں کرتی اور نا ہی اپنی آمدنی اور اخراجات، فنڈز کی تفصیل اور عطیات فراہم کرنے والوں کے ناموں سے آگاہ کرتی ہے۔ جو چیز صورت حال کو مزید تکلیف دہ بنا دیتی ہے وہ متعلقہ اداروں، جیسا کہ ای سی پی اور ایف بی آر کا سیاسی جماعتوں کی جانب سے قانون کی پامالی سے اغماض برتنا ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہر سیاسی جماعت کو اپنی آمدن، اخراجات اور فنڈز کے ذرائع اور اثاثوں کی تفصیل مالی سال (جولائی تا جون) ختم ہونے سے 60 روز کے اندر ایک مستند سٹیٹمنٹ کی صورت میں، جس کی کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے تصدیق کی ہو اور جس پر پارٹی قائد کے دستخط موجود ہوں، الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرانی ہوتی ہے۔ اس سٹیٹمنٹ کے ہمراہ ایک سرٹیفکیٹ بھی ہو جس میں پارٹی قائد کے دستخط کے ساتھ یہ تصدیق کی گئی ہو کہ اس کی جماعت کسی ایسے ذرائع سے فنڈز نہیں لے گی جسے قانون ممنوع قرار دیتا ہے۔

رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی اکثریت مروجہ قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس قانون کا مقصد رائے دہندگان، سیاسی کارکنوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کو سیاسی جماعتوں کے مالیاتی امور کی شفافیت سے باخبر رکھنا ہے، لیکن الیکشن کمیشن اس کے نفاذ کی زحمت نہیں کرتا۔

قانون منتخب نمائندوں کو بھی پابند کرتا ہے کہ وہ مالی سال کے ختم ہونے کے 3 ماہ کے اندر اپنے اثاثے، قرضہ جات اور اخراجات کی تفصیل قانون میں درج طریق کار کے مطابق جمع کرائیں۔ ایسا کرنے میں ناکامی کی صورت میں وہ نااہل قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان قوانین کا نفاذ انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ ہر سال الیکشن کمیشن آف پاکستان کئی اراکین کی رکنیت معطل کرتا ہے لیکن جب وہ اپنے اثاثے ظاہر کر دیتے ہیں تو تاخیر پر کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی۔

اس کے علاوہ ایسا کوئی میکنزم موجود نہیں جس کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ایف بی آر کے پاس جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیل کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا ارکان اپنی درست آمدن اور اثاثے ظاہر کر رہے ہیں یا کیا اُن کی بیان کردہ آمدن اُن کے شاہانہ طرز زندگی سے مطابقت رکھتی ہے؟ نیب نے بھی کبھی قانون سازوں کے اعلان کردہ اثاثوں کی چھان بین کی زحمت نہیں کی کہ اتنی معمولی آمدنی ظاہر کرنے والے اتنی عالیشان زندگی کیونکر بسر کر سکتے ہیں؟

اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں اکثر ارکان اپنی آمدن صرف وہی ظاہر کرتے ہیں جو اُنہیں سرکاری طور پر مشاہرہ ملتا ہے، حالانکہ اُن کی پرتعیش زندگی، غیر ملکی دورے، مہنگی گاڑیاں، ملازموں کی فوج اور دیگر مہنگے لوازمات کوئی اور ہی کہانی سنا رہے ہوتے ہیں۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتیں۔ ایف بی آر نے کبھی انہیں نوٹس بھیجنے کی زحمت یا جسارت نہیں کی۔ انڈیا میں انکم ٹیکس ایکٹ 1961 سیاسی جماعتوں پر ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی پابندی عائد کرتا ہے۔ چیف الیکشن کمیشن آف انڈیا سنٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز سے سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی جانچ کرنے کا کہتا ہے مگر پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں ای سی پی، ایف بی آر اور نیب اس اہم معاملے سے چشم پوشی کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ یہاں پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 ایک عرصہ تک ٹیکس چوروں اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کو کھلی چھٹی دیتا رہا کہ وہ اربوں روپے مالیت کا کالا دھن نہایت آسانی سے سفید کر لیں۔ تمام عوامی عہدے رکھنے والوں اور ان کے زیر کفالت افراد جو اس قانون سے استفادہ کرتے ہوئے دولت کے ڈھیر لگا چکے ہیں، کو ریاست کو دھوکہ دینے کی پاداش میں نااہل قرار دیا جانا چاہئیے تاہم ای سی پی، ایف بی آر اور نیب کے پاس ایک بھی ایسا کیس نہیں بھجوایا جاتا۔ حتیٰ کہ پاناما پیپرز کے بعد بھی کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آیا۔

ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ٹیکس گوشوارے جمع کرانا لازمی قرار دیا جائے تا کہ شہری اُن کے مالیاتی امور کو جانچ سکیں۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کو غیر نفع بخش اداروں کے طور پر چلایا جاتا ہے، جن کا واحد مقصد عوامی فلاح ہوتی ہے۔ دنیا میں سیاست سے پیسہ کمانے کا کوئی تصور موجود نہیں۔

ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بھاری سرمایہ کاری کر کے مزید نفع کمانے والے بڑے ناموں کے اثر سے بچایا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ عوام اپنے اپنے نظریات اور مقاصد کے مطابق سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی اختیار کریں۔ ان کے مالی تعاون سے سیاسی جماعتیں 'بھاری بھرکم فنانسر' کے اثرات سے نکل سکتی ہیں؛ لیکن عوام کی سیاسی، جمہوری اور انتخابی عمل میں مؤثر شمولیت اُسی وقت ممکن ہو گی جب وہ سیاسی جماعتوں کے مالی امور کی بابت پراعتماد ہوں گے۔

چنانچہ سیاسی جماعتوں کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے مالی امور کو شفاف رکھتے ہوئے عوام کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔ اس سے نا صرف وہ اپنی ساکھ بہتر بنائیں گی بلکہ فنانسر کی بلیک میلنگ سے بھی بچ جائیں گی۔ عوامی تعاون آہستہ آہستہ شخصیت پرستی کو کمزور کر کے حقیقی جمہوریت کو فروغ دے گا۔ چنانچہ جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی تو وہ زیادہ معقول اور شفاف رویہ اپنائے گی۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔