موروثی سیاست کے جواب میں بلوچ نوجوان خود الیکشن لڑیں گے

نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان علی احمد لانگو نے بتایا کہ متوقع الیکشن کے حوالے سے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے درخواستیں جمع کروائی ہیں اور پارٹی ان پر غور کر رہی ہے۔ ابھی تک پارٹی نے کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا، الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد ٹکٹ جاری کریں گے اور نوجوانوں کو ہرگز مایوس نہیں کریں گے۔

موروثی سیاست کے جواب میں بلوچ نوجوان خود الیکشن لڑیں گے

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والا 38 سالہ نوجوان سعد دہوار پرامید ہے کہ 2024 کے متوقع الیکشن میں بلوچستان اسمبلی میں نوجوان پارلیمنٹ کا حصہ بن کر پالیسی سازی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ سعد دہوار نے 2024 کے متوقع الیکشن کے حوالے سے سریاب کوئٹہ کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کے لئے پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواست پارٹی کے پارلیمانی بورڈ میں جمع کروا دی ہے۔

سعد دہوار بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل پارٹی کے صوبائی سوشل میڈیا سیکرٹری ہیں اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی سیاست میں شرکت پر کھل کر اظہار خیال کرتے ہیں۔ سعد دہوار نے بتایا کہ لوکل باڈیز الیکشن میں نوجوانوں کو سیاست میں آگے آنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ یہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں نوجوان کونسلر سے چیئرمین منتخب ہو کر ملکی سیاست میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ان کے مطابق خوش قسمتی کی بات ہے کہ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں بلوچستان بھر میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد منتخب ہو کر مقامی حکومتوں کا حصہ بن چکی ہے۔

تربت سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ ظریف زرگ یونین کونسل سنگ قلات کے چیئرمین ہیں اور متوقع الیکشن میں اپنی پارٹی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے نامزد امیدوار ہیں۔ وہ بلوچستان کی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے مرکزی جونیئر نائب صدر بھی ہیں۔

نوجوانوں کی سیاست میں شمولیت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ موروثی سیاست کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو سیاست میں آنا ہوگا کیونکہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچ نوجوانوں کو انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمنٹ میں اپنے حقوق اور پالیسی سازی میں کردار ادا کرنا ہو گا اور موروثی سیاست کے خاتمے کے لئے الیکشن لڑ کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا کیونکہ اگر نوجوان سیاسی عمل سے مایوس ہو کر انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے تو یہ موروثی سیاست دان مزید مضبوط ہو کر نوجوانوں کا استحصال کرتے رہیں گے۔ ان کے بقول میں پہلی بار صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور پارٹی نے مجھے ٹکٹ بھی دے دیا ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق رکن قومی اسمبلی کا امیدوار انتخابی مہم کے دوران زیادہ سے زیادہ 40 لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار 20 لاکھ روپے خرچ کر سکتا ہے۔

نوجوان ووٹرز کی تعداد

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ووٹرز کی عمروں کا ڈیٹا بھی جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق 18 سے 25 سال کے ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 35 لاکھ 26 ہزار 34 ہے جبکہ 26 سے 35 سال کے ووٹرز کی تعداد 3 کروڑ 26 لاکھ 70 ہزار445 ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 18 سال سے 35 سال تک کی عمر کے ووٹرز کی تعداد میں 90 لاکھ سے زائد ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے۔

بلوچستان میں 25 سال سے کم عمر ووٹرز کی تعداد 10 لاکھ 90 ہزار، جبکہ 26 سال سے 35 سال تک عمر کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 13 لاکھ 80 ہزار ہے۔  جیو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 18 سے 25 سال تک کے ووٹرز کی تعداد 23 ملین یعنی 18 فیصد اور 26 سے 35 سال کے ووٹرز کی تعداد 32.6 ملین یعنی 26 فیصد ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2018 کے الیکشن میں کیچ تربت سے ووٹرز کا مجموعی ٹرن آؤٹ 40 فیصد رہا تھا۔

پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے 727 مجموعی امیدواروں میں سے صرف 122 یعنی 17 فیصد سے بھی کم پر نوجوانوں کو موقع دیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے کل 646 امیدواروں میں سے محض 68 نوجوان امیدواروں یعنی 13 فیصد کو موقع دیا تھا۔

سیاسی پارٹیاں کیا کہتی ہیں؟

بلوچستان کی قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان علی احمد لانگو نے بتایا کہ متوقع الیکشن کے حوالے سے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے درخواستیں جمع کروائی ہیں اور پارٹی ان پر غور کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت تک پارٹی نے کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا، الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد ٹکٹ جاری کریں گے اور نوجوانوں کو ہرگز مایوس نہیں کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ دو ادارے سیاست دان پیدا کرتے ہیں۔ سٹوڈنٹس پولیٹکس اور لوکل باڈیز دو ایسے ادارے ہیں جہاں نوجوان سیاست دان پیدا ہوتے ہیں اور انہی پلیٹ فارمز کی بدولت وہ صوبائی اور قومی اسمبلی تک پہنچ پاتے ہیں مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں سٹوڈنٹس پولیٹکس پر قدغن ہے۔ یہاں ضیاء الحق کے زمانے میں 1983 سے طلبہ یونین پر پابندی عائد ہے۔

نوجوان سیاست دان سعد دہوار کے مطابق الیکشن میں بڑے سرمایہ داروں کے رسوخ کی وجہ سے اب متوسط طبقے کے لئے الیکشن لڑنا مشکل ہو گیا کیونکہ سرمایہ دار انتخابی مہم میں کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ ان کے بقول زیادہ تر نوجوانوں کا تعلق متوسط طبقے سے ہے جبکہ پیراشوٹر کو روکنے کے لئے سیاسی پارٹیوں کو ایک ایسا میکنزم بنانا ہوگا کہ سیاسی لوگ پارلیمنٹ میں آئیں۔

خاتون سیاسی کارکن کلثوم نیاز جو کوئٹہ سے رکن نیشنل پارٹی ہیں اور عام انتخابات میں حصہ لینے والی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میں انتخابات یا سیاسی عمل میں اس لیے حصہ لے رہی ہوں تاکہ سیاسی عمل کے ذریعے خواتین کی نمائندگی کر سکوں اور خواتین کی مشکلات اور فلاح و بہبود کے لیے اسمبلی میں جا کر قانون سازی کروا سکوں۔

گہرام اسلم بلوچ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے میڈیا اینڈ جرنلزم سٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور تحقیقاتی صحافی ہیں۔