Get Alerts

بلاول بھٹو کی قیادت میں ’’کارروان بھٹو‘‘ لاڑکانہ کی جانب رواں دواں

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کی قیادت میں کارروان بھٹو کراچی سے لاڑکانہ کی جانب رواں دواں ہے۔

کراچی کے کینٹ سٹیشن سے کارروان بھٹو نے اپنے سفر کا آغاز کیا جو نو روز بعد چار اپریل کو لاڑکانہ میں اختتام پذیر ہو گا جہاں بلاول بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔

بلاول بھٹو نے کراچی کے کینٹ سٹیشن پر پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا، عوام کا سیلاب ہمارے ساتھ ہے۔ شہید ذوالفقارعلی بھٹو کے جیالوں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔ انہوں نے کہا، بھٹو کل بھی زندہ تھا، بھٹو آج بھی زندہ ہے۔

https://youtu.be/JMULt8brVck

کارروان بھٹو میں بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی موجود ہے جن میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی، نثار کھوڑو سمیت دیگر رہنماء شامل ہیں۔

بلاول بھٹو کے ساتھ کارروان بھٹو میں شریک ہونے کے لیے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھی کینٹ ریلوے سٹیشن پہنچی۔

بلاول بھٹو اپنے اس سفر کے دوران 25 مختلف مقامات پر کارکنوں سے خطاب کریں گے اور وہ کراچی کے  ڈرگ روڈ جنکشن اور لانڈھی سٹیشن پر بھی خطاب کریں گے۔

اندرون سندھ کے اہم شہروں حیدرآباد، ٹنڈوآدم، شہداد پور اور شہید بے نظیر آباد سمیت سندھ کے مختلف ریلوے سٹیشنوں پر جیالوں کا یہ کارروان رکے گا جہاں پیپلز پارٹی کے چیئرمین کارکنوں سے خطاب کریں گے۔

صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا ہے کہ یہ ٹرین مارچ نہیں ہے بلکہ صرف کارروان بھٹو ہے اور مارچ کا اعلان چار اپریل کو کیا جائے گا جو پورے ملک میں ہو گا۔



انہوں نے کہا، بلاول بھٹو ہر برس چار اپریل کو لاڑکانہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہیں تاہم اس بار انہوں نے ٹرین سے لاڑکانہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ کارکنوں کی درخواست پر مختلف مقامات پر ان سے خطاب بھی کریں گے

یاد رہے کہ کارروان بھٹو کا آغاز صبح 10 بجے ہونا تھا تاہم تاخیر کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کارروان بھٹو پر طنز کرتے ہوئے اسے دنیا کا پہلا ’’ابو بچائو مارچ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پہلی ایسی تحریک ہے جو کرپشن کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے شروع کی جا رہی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جارحانہ سیاست پی ٹی آئی کی  حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔