مدت سے لاپتہ ہیں، خدا جانے کیا ہوگا

مدت سے لاپتہ ہیں، خدا جانے کیا ہوگا
ریاست کو ماں کہتے ہیں کیونکہ ماں کا دل سمندر سے گہرا اور آسمانوں سے زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ ماں اولاد سے نفرت نہیں کر سکتی، ماں پیار ہی پیار ہے۔ غلطیاں معاف بھی کرتی ہے اور غلطیوں کے باوجود سینے سے بھی لگاتی ہے۔ ماں بلکتے بچے کو دیکھ کر تڑپ جاتی ہے تو تکلیف میں دیکھ کر ایک پاؤں کھڑی ہو جاتی ہے۔ ریاست کو ماں سے اس لیے تشبیہ دی جاتی ہے کہ ریاست گندے، میلے، روتے بسورتے بچوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔ ریاست مجموعہ ہے ہر ادارے کا۔

بلوچوں اور پشتونوں کو اغوا کرنا اور ان کو عدالت میں پیش نہ کرنا ایک سنگین ترین مسئلہ ہے اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اگر پاکستان کو مستحکم رکھنا ہے تو آزادی اظہار پر لگے پیرے کو ختم کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو با اختیار اور قوموں کے حق حاکمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ‏ہمارے بلوچ اور پشتون بھائی بہنوں کے ان آنسووں سے اگر عرش کو کچھ نہیں ہوگا تو یہ آنسو ایک دن فرش پر موجود خداؤں کے تخت ضرور ملیا میٹ کریں گے۔

یونیورسٹی کے ایک بلوچ دوست نے مجھے کہا کہ ہمارے گاؤں میں ‏اب کوئی بھی بلوچ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے نہیں دے رہے، کیونکہ جس بلوچ نے تعلیم حاصل کی، اسے لاپتہ کر دیا گیا۔ ان میں سے اکثریت کی مسخ شدہ لاشیں ملیں اور باقی ابھی تک لاپتہ ہیں، یہ نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہیں یا مار دیے گئے ہیں۔

یہاں ہر وقت قانون شکنی ہوتی ہے۔ ‏قانون کہتا ہے کہ اگر کسی مجرم کو جرم کی بنا پر اٹھایا جائے تو اسے ایک دن کے اندر اندر عدالت میں پیش کیا جائے، لیکن یہاں تو دس سال بعد بھی مجرم کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔ اور جب بعد میں رہا ہو جاتے ہیں تو وہ یا تو پاگل ہوتے ہیں یا تشدد کی وجہ سے معذور بن چکے ہوتے ہیں۔

بھٹو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب سابقہ چیف منسٹر عطااللہ مینگل کا بیٹا اسداللہ مینگل اغوا ہوا تو میں نے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف ٹکہ خان اور ضیاالحق (نئے منتخب کردہ) سے دریافت کیا کہ اسداللہ مینگل کدھر ہیں تو انہوں نے جواب دیا ہمیں کچھ پتہ نہیں۔ اسرار کرنے پر کہا کہ اسے پچھلی رات ٹھٹہ سندھ میں مار دیا گیا ہے۔ جب پوچھا گیا کہ لاش کدھر ہے تو کہا گیا کہ ہمیں پتہ نہیں۔ بھٹو نے کہا کہ کس طرح آپ کو پتہ نہیں تو کہنے لگے بس آپ انہیں بتا دیجیے کہ اسداللہ مینگل افغانستان بھاگ گیا ہے۔

بھٹو لکھتے ہیں کہ اگر اس وقت میں ان جنرلوں کا کڑا احتساب کرتا تو آج شاید میں جیل میں نا سڑ رہا ہوتا اور نہ کوئی بیگناہ اغوا ہوتا۔

اگر کسی نے کچھ غلط کیا ہے تو اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے، اس پر بغیر جرم کے اٹیک کرنا قابلِ سزا جرم ہے۔ کسی کو غائب کرنا کسی بھی مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں، اگر یہ آنسو ہم نے نہیں پونچھے تو اوپر والا پونچھ لے گا مگر اس کے ساتھ ہی اس کی پکڑ بھی زبردست ہوگی۔ محکوم طبقوں کو مل کر ریاستی جبر، استحصال اور ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا چاہیے۔