بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری طور پر لاپتہ کئے گئے 137 افراد مئی کے مہینے میں اپنے گھروں کو واپس لوٹے،کمیشن

بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری طور پر لاپتہ کئے گئے 137 افراد مئی کے مہینے میں اپنے گھروں کو واپس لوٹے،کمیشن
 

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی سراغ رسانی کے لئے بنائے گئے کمیشن نے مئی کے مہینے کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ  گزشتہ مہینے کُل 157  لاپتہ افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے جن میں 137 افراد کا تعلق صوبہ بلوچستان کے ضلع اواران اور کیچ سے ہے۔  کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں واضح کیا ہےکہ کمیشن کے پاس گزشتہ مہینے جبری گمشدگیوں کے مزید  145 نئے کیسز درج ہوئے ۔ کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں کہا ہے کہ مئی کے  مہینے میں کمیشن نے 184 ایسے افراد کا سراغ لگایا ہے جن کے خاندان  نے کمیشن کو جبری گمشدگیوں کے کیسز رپورٹ درج کئے تھے ۔ کمیشن کے مطابق اُن لاپتہ افراد میں سے 157 اپنے گھروں کو واپس لوٹے جبکہ  پندرہ دیگر افراد کا بھی سراغ لگا لیا ہے جو کہ فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید ہیں۔ کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں دعویٰ کیا ہے کہ کمیشن نے دیگرجبری طور پر لاپتہ کئے گئے 14 دیگر افراد کا بھی سراغ لگالیا ہے جو ملک کے مختلف جیلوں میں قید ہیں اور اس اُن پر قانونی دفعات لگائے گئی ہیں۔  کمیشن نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ   دو ایسے کیسز کو خارج کیا گیا ہے جو جبری گمشدگیوں کے نہیں تھے۔ ملک میں لاپتہ افراد کی سراغ رسانی کے لئے بنائے گئے کمیشن  نے بلوچستان کے ضلع اوران اور کیچ سے تعلق رکھنے 137 افراد کے کیسز پر بھی کام کیا اور سرکاری حکام سمیت جبری طور پر لاپتہ کئے گئے اہلکاروں کے خاندانوں نے کمیشن کے سامنے موقف اپنایا کہ وہ باحفاظت اپنے گھروں کو واپس لوٹے ہیں۔ کمیشن نے بلوچستان کے ضلع کیچ سےجبری طور پر گمشدہ کئے گئے علی کا کیس بھی اُٹھایا جس  پر نائب تحصیلدار ضلع کیچ نے کوئٹہ میں کمیشن کے سامنے بیان قلمبند کراتے ہوئے موقف اپنایا کہ جبری طور پر لاپتہ کئے گئے۔ علی ولد فقیر داد اپنے گھر باحفاظت واپس لوٹے جس کےبعد کمیشن نے اس کیس کو بند کردیا۔ کمیشن نے بلوچستان کے ضلع آوران سے تعلق رکھنے والے نیک محمد ولد یعقوب کا کیس بھی اُٹھایا جس پر کمیشن کو لیوی رصالدار نے اُن کے گھر باحفاظت واپسی کا سرٹیفیکیٹ کمیشن کے ساتھ جمع کیا، جس پر خاندان سمیت ڈپٹی کمشنر کے دستخط تھے کہ وہ باحفاظت گھر لوٹ چکے ہیں۔  اس اقرار کے بعد کمیشن نے اس کیس کو بند کردیا۔

کمیشن نے ملک میں جبری گمشدگیوں کی کُل تعداد پر بات کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کمیشن کے پاس اس سال مئی کے مہینے تک 8018 جبری گمشدگیوں کے کیسز درج ہوئے جن میں 5722 افراد کا سراغ لگا لیا ہے جبکہ 2296 افراد کا تاحال معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ وہ کدھر ہے۔  کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں کہا ہے کہ سال 2021 کے پانچ مہینوں میں جبری گمشدگیوں کے 1098 کیسز درج ہوچکے ہیں جو گزشتہ سال کی نسبت بہت زیادہ ہے کیونکہ سال 2020 میں جبری گمشدگیوں کے کُل 415 کیسز کمیشن کے پاس درج ہوچکے تھے۔کمیشن  کے سامنے پیش ہوتے ہوئے ٹیکسلا کے رہائشی ذاکر نے بتایا  کہ پانچ مارچ کو اُن کو نامعلوم افراد نے چہرے پر کپڑا ڈال کر اغوا کیا اور 45 دن بعد مجھے لاہور میں چھوڑ دیا گیا لہذا میں اس کیس میں مزید کاروائی نہیں چاہتا اور کمیشن اس کیس کو بند کردیں جس کے بعد کمیشن نے اس کیس کو  بند کردیا۔ کمیشن کو جبری طور پر گمشدہ کئے گئے  ضلع بنوں کے شہری رفیع  اللہ  کے چچا نے بتایا کہ ان کا بھتیجا جبری گمشدگی کے بعد واپس اپنے گھروں لوٹا ہے اور وہ پشاور کے ایک مقام ہسپتال میں زیرعلاج ہے لہذ ا اس کیس کو بند کیا جائے جس کے بعد اس کیس کو بھی بند کیا گیا ۔

کمیشن نے جبری طور پر لاپتہ  کئے گئے ضلع مہمند کے رہائشی عبید اللہ کے کیس پر بھی کارروائی کی  اور ان کے والد فضل محمد نے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کا پتہ چل چکا ہے اور وہ اج کل ضلع مہمند کے ہیڈکوارٹر غلنی کے ایک فوج حراستی مرکز میں قید ہے۔ کمیشن نے پشاور کے رہائشی محمد مصطفیٰ کا کیس بھی اُٹھایا جس پر کمیشن کو سرکاری حکام نے کہا کہ گمشدہ شخص مصطفیٰ کے حوالے سے پولیس اور اداروں نے اعلیٰ سطح پر تحقیقات کیں اور یہ معلوم ہوا کہ ان کو ایک عسکریت پسند تنظیم نے اغوا کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا ہے۔

کمیشن نے ضلع پارہ چنار سے تعلق رکھنے  والے اہل تشیع مسلک کے سات افراد جن کے جبری گمشدگیوں کے رپورٹس کمیشن کے پاس درج ہوچکے تھے  پر بھی پیش رفت کیا اور  کوہاٹ کے پولیس ایس ایچ او نے اس کیس کے حوالے سے  کمیشن کے سامنے بیان قلمبند کیا اور کہا کہ  ضلع پارہ چنار سے تعلق رکھنے والے کمال حسین، تجمل حسین، اجمل حسین، شہزاد علی، نوید حسین ، سجاول حسین، عدنان حیدر، جمال حسین،  اس وقت کوہاٹ جیل میں قید ہیں اور ان تمام   افراد پر قتل سمیت کئی دفعات درج ہیں۔ کمیشن نے جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا کے رہائشی شفیع اللہ کا کیس بھی اُٹھایا   جن کے جبری گمشدگی کا کیس کمیشن کے پاس درج ہوچکا ہے ۔ کمیشن نے ملک کے تین خفیہ اداروں سمیت، ایف سی خیبر پختونخوا اور انسداد ہشتگردی فورس کے اعلیٰ حکام سے حلف لیا اور کمیشن کے سامنے سب نے حلف لیتے ہوئے بیان قلمبند کیا کہ وانا کے رہائشی شفیع اللہ ان کی حراست میں نہیں ہے۔ کمیشن نے اس کیس کو بند کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ وہ خود گھر چھوڑ کر گئے ہیں اور اس کیس کا جبری گمشدگی سے کوئی تعلق نہیں۔کمیشن کے سامنے ضلع اورکزئی کے جبری طور پر لاپتہ کئے گئے عتیق الرحمان کی بیوی ، بی بی غنچہ بھی پیش ہوئی اور ایک خفیہ ایجنسی  نے کمیشن کے سامنے بیان قلمبند کرتے ہوئے کہا کہ عتیق الرحمان اس وقت فوج کے زیر نگرانی حراستی مرکز کوہاٹ میں قید ہے اور خاندان والوں کے ساتھ جلد اُن کی ملاقات کی جائے گی۔

کمیشن کے سامنے اورکزئی سے تعلق رکھنے والے جبری طور پر لاپتہ شخص کمال دین کی بیوی چنار بی بی بھی پیش ہوئی ۔ کمیشن کو فوج کے زیر نگرانی خفیہ ادارے ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے حکام نے بیان قلمبند کرتے ہوئے کہا کہ کمال حسین اس  وقت علی زئی کے مقام پر فوج کے زیر نگرانی حراستی مرکز میں قید ہے۔ تاہم ضلع اورکزئی کے پولیس ایس پی نے کمیشن کے سامنےبیان قلمبند کرتے ہوئے کہا کہ کمال دین کچھ روز پہلے اپنے گھر واپس لوٹ چکے ہیں۔ جس کے بعد کمیشن نے اس کیس پر مزید پیش رفت بند کردی۔کمیشن  شمالی وزیر ستان کے جبری طور پر لاپتہ کئے گئےرہائشی اصف کا کیس بھی اُٹھایا جس پر سرکاری حکام نے کمیشن کو بتایا کہ اصف اس وقت فوج کے زیر نگرانی حراستی مرکز فیتوم سوات میں قید ہے جس کے بعد کمیشن نے اس کیس کو بھی بند کردیا۔کمیشن نے جبری طور پر لاپتہ کئے گئے پشاور کے رہائشی فواد کا کیس بھی اُٹھایا جس پر کمیشن کو بتایا گیا کہ فواد اس وقت ضلع مہمند کے غلنی حراستی مرکز میں قید ہے۔کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں واضح کیا ہے کہ وقت فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں کُل 892 افراد قید ہے جن میں 747 افراد کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہیں

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔