بلوچستان کی بیٹیاں: جبری طور پر گمشدہ افراد کے خاندانوں کا نوحہ

بلوچستان کی بیٹیاں: جبری طور پر گمشدہ افراد کے خاندانوں کا نوحہ



کل کوئٹہ کے سڑکوں پر،کڑکتی دهوپ کے چهاؤں تلے،اداس چہروں میں  ایک امید لے کے بلوچستان کی دو بیٹیاں سراپا احتجاج تهیں۔ ان میں سے ایک اپنے بهائی اور دوسرے اپنی شوہر کی بازیابی کے لیے آئی تهی،دونوں میں خاص خاندانی و علاقائی  فرق نہیں تها۔ ایک شبیر بلوچ کی بہن اور دوسرا شبیر بلوچ کی بیوی تهی.

شبیر بلوچ کی اہلیہ نفسیاتی طور پر کنفیوز تهی. اسکے ہاتھ میں موجود بینر بهی کنفیوز تهی یہ بینر نما چارٹ کی فوٹو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ناظرین بهی کنفیوز ہوئے،اس احتجاج میں موجود بلوچستان کی ہر بیٹی کنفیوز ہوئی ،اس لیے ہم بهی کنفیوز ہیں۔ بظاہر چار  انچ لمبا اور ساڑهے تین انچ چوڈا ایک چارٹ بھلے کیسے کنفیوز کرنے کی صلاحیت رکهتا ہے۔ لیکن چارٹ پر لکهے الفاظ ہر دل کو مقناطیس کی طرح کهینچ لیتے ہیں۔ شبیر بلوچ کی بیوی کہہ رہی تهی "کہ میں خود کو شبیر کی بیوه سمجهوں یا بیوی"ایک  نا تمام جملے کو بیان کرنے کے لیے شبیر کے خاندان آواران سے آیا ہوا تها۔


وه آواران جہاں لوگ احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ جس سے پاکستان کا ہر بچہ سوائے ان طبقے  کے جو سوشل اور الیکٹرونک میڈیا سے دور ہیں۔  شاید انہیں پتا نہ ہو وگرنہ حامد میر کی 7 ستمبر کی نشریات تو سب نے دیکھ لیا ہوگا۔ آواران کی محرومی ،پسماندگی سے لگ ایسا رہا تها کہ کہیں آواران ایک ایسا علاقہ ہو جو گویا آج آزاد ہوا ہو،آج بنا ہو، گورنمنٹ کی تشکیل آج ہوا ہو۔ وہاں کے لوگ صاف پانی بجلی جیسی سہولیات سے محروم  ہیں۔


صحت اور تعلیم جیسے بنیادی اور انمول تحفے آج تک آواران کے باسیوں کی نصیب میں نہیں آئے۔ صاف پانی،بجلی،روڈ،صحت اور تعلیم کے پیسے آج تک آواران میں نہ پہنچ سکے وه پیسے کہیں کوئٹہ کے رہائشی مکانوں میں آپکو ملیں گے۔ جعلی اکاؤنٹ سے بنک تک ملیں گے یا پهر آواران کے لیے فنڈ بیرونِ ملک اور اندورنِ ملک  جائیدادوں اور کمپنیوں کی شکل میں  ملیں گے۔  بلکہ صرف آواران نہیں پورا بلوچستان اسی طرح پسمانده ہے مگر وہاں تک ہماری رپورٹنگ ناکافی ہے۔


گوادر کو اگرسمندر نے ترقی دلوائی تو "شکریہ سمندر"،گوادر کے باسی  سمندر کی خاطر بنائی گئی  پارک ضرور دیکهیں گے۔ سمندر کے لیے بنائی گئی روڈ بهی، چین  کی خاطر دیا ہوا  صاف پانی بهی شاید گوادریوں کے کهاتے میں جمع ہو۔ گر اسی طرح گوادر کا ساحل  چین کے لیے آباد  رہے تو ہو سکتا ہے گوادر کو ایک یونیورسٹی بهی نصیب ہو،وہاں بلوچستان کی بیٹے اور بیٹیاں صاحب اور صاحبہِ تعلیم بنیں۔  " بلوچستان کی بیٹیوں" نے تعلیم کو چنا ہے، بلوچستان کی بیٹیاں  تعلیم سے استفاده کرکے مستقبل میں بلوچستان کو  محرومیوں سے نکالنے کے عزم میں  ثابت قدم ہیں۔  وه آئنده آواران کو اسی طرح پسمانده نہیں دیکهنا چاہتے۔ وه بلوچستان کو وہاں تک پہنچانے کے عزم میں ہیں جہاں بلوچستان کا حق بنتا ہے۔ 

بلوچستان کی بیٹیاں خاندانی اور معاشرتی قید و بند سے نکل کر حصولِ علم کی خاطر دور دراز علاقوں تک جانے میں کامیاب تو رہی ہیں مگر وه کالجز اور یونیورسٹیز تک نہ پہنچ سکے ہیں جہاں وه ایک خواب لے کے گئے تهے بلوچستان کی بیٹیاں کہیں ہمیں کوئٹہ کے سڑکوں پر دهکے کهاتے ہوئے ملیں گے،کہیں ہم انکی تلاش جیلوں تک کریں گے،کبهی وه سڑکوں پر بهوک ہڑتال میں مشعول  ہونگے  کبهی وه اسپتالوں کے آئی سی یو میں   بے ہوش ہوتے ملیں گے،کبهی  وه اپنے بنیادی حقوق کے لیےسوشل میڈیا میں ہیش ٹیگ چلا رہے  ہونگے اور کبهی وه بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر احتجاج کرتے ہوئے ملیں گے۔

بلوچستان کی بیٹیاں تعلیم جیسی عظیم ہستی تک پہنچنے سے بالکل قاصر ہیں،  تعلیم کی خاطر آدها کلومیٹر کا سفر  طے کرکے کہیں انتظار گاه میں بیهٹے  ہیں کہ کہیں حکومتی گاڑی ہمیں لینے آجائے۔

تعلیم نے انہیں مزاحمت سکها دی ہے،لڑتے لڑتے جیتنے کا ہنر سکهایا ہے۔ بهوک ہڑتال کرنا،بهوک و افلاس میں زنده رہنے کی برداشت سکهایا ہے، تعلیم نے انہیں جیل بهی دکهائے ہیں،حکمرانوں کو  بیدار کرنا انہوں نے سکهایا ہے۔

 شاید آنے والے حکمرانِ وقت ان سے کچھ سیکھ  جائیں،شاید بلوچستان کی محرومیوں کا خاتمہ انکی بدولت ختم ہو،شاید ان کی بدولت کل کا بلوچستان  "پسمانده" نہ ہو۔






یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔