سینئر صحافی انصار عباسی کی روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انہوں نے انکسشاف کیا ہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے بجٹ میں ضمنی گرانٹ کے نام پر حکومت نے اربوں کے ایسے اخراجات شامل کر لئے ہیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں کھل جائیں۔
انصار عباسی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ حکومت نے ضمنی گرانٹ کے نام پر دفاعی حکام اور صوبائی حکومتوں کے وی وی آئی پی طیارے اور ہیلی کاپٹرز کی مرمت ، ثالثی کیلئے بین الاقوامی مقدمات کے اخراجات، سپریم کورٹ کے ججوں کی رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش اور مرمت، مختلف شہروں میں ضمنی دفاتر اور ریسٹ ہائوسز، انٹیلی جنس بیورو کے اضافی اخراجات اور حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ (بالخصوص سندھ سے تعلق رکھنے والوں) کو ترقیاتی اسکیمیں دینے کے نام پر اربوں روپے خرچ کر ڈالے ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بجٹ اخراجات سے ہٹ کر حکومت نے جو بھی اضافی اخراجات شامل کیے ہیں ان میں وزیراعظم کی بچھڑا بچائو (سیو دی کاف) اسکیم پر کیے گئے اخراجات بھی شامل ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان برطانیہ میں حیدرآباد فنڈ کیس ہار گیا۔ یہ ملک کیلئے ایک بڑا دھچکا تھا لیکن بجٹ دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کیس کی قانونی ادائیگیوں کیلئے اسلام آباد کو 1.2؍ ارب روپے ادا کرنا پڑے یہ ادائیگیاں ابو ظہبی، جدہ اور لندن میں پاکستانی نمائندوں کے ذریعے کی گئیں۔
انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق قومی خزانے پر ڈالے جانے والے اضافی بوجھ میں براڈ شیٹ ایل ایل سی کو کی جانے والی 433؍ ملین روپے کی ادائیگی بھی شامل ہے جو بین الاقوامی ثالثی کیس میں پاکستان کی شکست کے بعد نیب کی جانب سے کی گئی۔ بجٹ دستاویز کے مطابق، وزارت دفاع کو اضافی 32؍ ارب روپے دیے گئے جس میں سے 45؍ ملین روپے ایئر ونگ کے تین ایکس سیسنا گرانڈ طیاروں کی مرمت اور تزئین و آرائش پر خرچ کیے گئے جبکہ 80؍ ملین روپے کے پی، پنجاب اور بلوچستان حکومت کے ہیلی کاپٹرز کی مرمت اور مینٹی ننس اور فاضل پرزہ جات کی خریداری پر خرچ کیے گئے۔ اضافی اخراجات میں وزارت دفاع کی جانب سے وی وی آئی پی گلف اسٹریم طیارہ کی مرمت اور مینٹی ننس پر خرچ کیے گئے 477؍ ملین روپے شامل ہیں۔
انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کو اضافی 922؍ ملین روپے دیے گئے تاکہ ادارہ اپنے طے شدہ بجٹ میں ہونے والی کمی کو پورا کر سکے۔ پاک بحریہ کے میڈیکل اسٹور کو 1.3؍ ارب روپے دیے گئے تاکہ وہ جاگیوٹ فارمز اسلام آباد میں زمین خرید سکے، 490؍ ارب روپے ضمنی گرانٹ کی صورت میں ادا کیے گئے۔ بجٹ میں مختص کردہ رقم سے ہٹ کر سپریم کورٹ اسلام آباد کی عمارت اور ججوں کی رہائش گاہوں، ریسٹ ہائوسز اور مختلف شہروں میں ذیلی دفاتر کی تزئین و آرائش، مینٹی ننس اسٹاف کی تنخواہوں کی مد میں 652؍ ملین روپے اضافی خرچ کیے گئے۔
روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کی بچھڑے بچائو اسکیم (سیو دی کاف) پر 7.4؍ ملین اضافی خرچ کیے گئے۔ مدرسہ اصلاحات پر ضمنی گرانٹ کی مد میں 38؍ ملین روپے، ماڈل دینی مدارس پر 57 ملین، شوگر سیکٹر پراڈکشن مانیٹرنگ ویڈیو اینالیٹکس سرویلنس (وی اے ایس) پر 350 ملین، کنسٹرکشن، ہائوسنگ، انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی رابطہ کاری مہم پر 302؍ ملین اور گورنمنٹ اینیشیٹیوز پر ایک ارب روپے خرچ کیے گئے، احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کی رابطہ کاری مہم پر ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کی بقایہ جات کی ادائیگی پر 109؍ ملین روپے خرچ کیے گئے، وزیراعظم کی ہدایت پر علامہ اقبال اسکالرشپ (تین ہزار عدد) افغان طلبا کو دینے پر 1.5؍ سارب روپے خرچ کیے گئے۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی بقایہ جات کی ادائیگی کیلئے 22؍ ارب روپے خرچ کیے گئے۔ حکمران جماعت کے سندھ سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کے سیاسی تحفظات دور کرنے کیلئے حکومت نے بجٹ اخراجات سے ہٹ کر کراچی اور سندھ میں مختلف پروجیکٹس کیلئے 16؍ ارب روپے خرچ کیے، ان پروجیکٹس میں گرین لائن بس پروجیکٹ، جام چکرا سے بنارس تک منگھوپیر روڈ پروجیکٹ کی تعمیر، نشتر روڈ اور منگھو پیر روڈ کی تعمیر، کے ایم سی کے موجودہ فائر فائٹنگ سسٹم کی اپ گریڈیشن، دادا بھائی ٹائون سے پی این ایس مہران تک ملیر بند روڈ کی تعمیر، تھرپارکر ضلع میں آر او پلانٹس کی تنصیب، میرپور خاص، حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر، بینظیرآباد ڈویژن اور کراچی کے مختلف اضلاع میں ترقیاتی اسکیمیں شامل ہیں۔