امریکہ طالبان مذاکرات میں حقیقی کامیابی کا دعویٰ

امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کا طریقہ کار اب بھی طے نہیں ہوا

افغانستان، امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں جاری سہ فریقی مذاکرات کا حالیہ دور بھی بے نتیجہ ختم ہو گیا ہے تاہم بڑی کامیابیوں کی جانب پیشرفت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

حالیہ مذاکرات کے اختتام پر امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں کچھ حقیقی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے طریقہ کار کے حوالے سے فی الحال کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

زلمے خلیل زاد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کیا، طالبان کے ساتھ دوحہ میں مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، امن کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور یہ واضح ہے کہ تمام فریق جنگ ختم کرنے کے حق میں ہیں۔

انہوں نے کہا، مذاکرات کے دوران اتار چڑھائو آتے رہے لیکن ہم نے چیزوں کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیا اور ایک حقیقی کامیابی حاصل کی۔

امریکی ایلچی نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے چار امور پر معاہدہ ازحد ضروری ہے جن میں انسداد دہشت گردی کو یقینی بنانا، فوجیوں کا انخلا، افغانستان میں مذاکرات اور جامع جنگ بندی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، جنوری میں ہونے والے مذاکرات میں ہم نے ان چاروں امور پر اصولی اتفاق کر لیا تھا اور اب ابتدائی دو معاملات کے نکات پر بھی تمام فریق متفق ہیں۔

انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دور کے حوالے سے کہا کہ میرا اگلا قدم واشنگٹن اور دیگر شراکت داروں سے مشاورت ہے، ہم جلد دوبارہ ملیں گے اور تمام چیزوں پر اتفاق تک کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہو گا۔



یاد رہے کہ اس وقت افغانستان میں 14 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ مذاکرات میں پیشرفت ہوئی ہے اور ہم اب اس بارے میں اپنی قیادت کو آگاہ کریں گے جس کے بعد اگلے اجلاس کی تیاری کی جائے گی۔

اس بارے میں فی الحال کچھ واضح نہیں ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور کب ہو گا۔

واضح رہے کہ مذاکرات کا حالیہ دور طویل ترین تھا جو 16 روز تک جاری رہا۔