Get Alerts

میرا جسم، میری مرضی میں اعتراض کیا ہے؟ اور کیا آپ کی مرضی ہو؟

میرا جسم، میری مرضی میں اعتراض کیا ہے؟ اور کیا آپ کی مرضی ہو؟
معاشرے فکری نمو سے ترقی پاتے ہیں۔ جن معاشروں میں فکر آزاد نہ ہو اور فکری آزادی مذہب، وطن پرستی اور فوج کی محبت سے مشروط کر دی جائے وہاں نیا پاکستان بنتا ہے اور نہ قوم بنتی ہے اور نہ ہی ملک ترقی کرتے ہیں۔ جو معاشرے عورت کو عزت نہیں دیتے وہ ہمیشہ زوال پذیر رہتے ہیں۔

آٹھ مارچ کو ہونے والے عورت مارچ پر تحفظات کا اظہار کرنے والے شخصی آزادی اور عورتوں کے حقوق سے واقف نہیں ہیں یا پھر عورت کے سر عام بولنے پر خفا ہیں۔ متشدد اور بے راہ روی جیسی خفگی میں بظاہر اچھے بھلے مہذب اور پڑھے لکھے انسان نما پتلے یہ تک بھول گئے کہ عورت مارچ میں شریک پاکستانی سماج ہی کی خواتین تھیں جن میں اکثریت مسلمان خواتین کی تھی۔ نوجوان خواتین کے ہمراہ بچے اور بوڑھی خواتین بھی شریک تھیں جو پانچ وقت کی نمازی بھی ہیں۔



کچھ مشرقی اقدر کی آڑ لے کر اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی ایسی تیسی کر رہے ہیں۔ کئی مذہب کو ہتھیار بنا کر حملہ آور ہیں اور مذہب کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہوئے قرآن و حدیث کے حوالے دے کر عورتوں کی تذلیل کرنے میں سبقت لے جانے پر کمر بستہ ہیں۔ یوم خواتین پر منعقد کردہ ریلیوں میں شریک خواتین کے نعرے اور پلےکارڈ کی تحریروں پر اعتراض اٹھائے جا رہے ہیں۔ تنقیدی مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ ٹی وی شوز میں کئی نیک اختر پروینیں اور صالحین عورت مارچ کو گناہ کبیرہ قرار دینے پر داد تحسین حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو لعنت بے شمار اور کئی قسم کی گالیوں سے نوازا جا رہا ہے۔



ارے غیرت مندو، مہذب اور عزت دارو، عورت مارچ میں جانے والی ہزاروں عورتیں بہنیں، مائیں اور بیٹیاں تھیں۔ کسی عورت نے وہاں اپنے بھائی، اپنے باپ اور اپنے شوہر کے خلاف نعرہ نہیں لگایا تھا۔ نہ ہی ان میں سے کسی نے ایسا کوئی پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر بھائی باپ اور خاوند کے خلاف نعرہ درج ہو۔ عورتیں تو مرد کی اس ذہنیت کو چیلنج کر رہی تھیں جو عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے۔ اس مرد کے خلاف نعرے درج تھے جو عورت کو صرف جنسِ بازار سمجھ کر بےرحمانہ سلوک روا رکھتا ہے۔ اس مرادنگی کی مذمت کر رہی تھیں جو راہ چلتی عورت کو بدنظری سے دیکھتی ہے۔ اس غیرت کا ماتم کر رہی تھیں جس کے نام پر کوہستان کی معصوم لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔



پلے کارڈز کی تحاریر وہی تھیں جو آج مہذب اور عزت دار عورتیں بول رہی ہیں۔ کچھ ظاہری کرتوت تحریر تھے اور کچھ ایسے کرتوت بھی طشت ازبام کیے گئے جو اندر کی ذہنیت اور مائنڈ سیٹ ہے۔ عورت مارچ کے پلے کارڈز کی تحریر نے کرشمہ کر دکھایا ہے کہ بہت سے خود ساختہ مہذب اور نیکوکاروں کے چہروں سے نقاب اتر گئے ہیں اور ان کے اندر کی غلاظت ابل کر باہر آ گئی ہے۔ کئی پردہ نشین اور بہت سے صحافیوں کے چہرے بھی سامنے آئے ہیں جو ٹی وی سکرین پر بھاشن دیتے رہے ہیں۔ ان کی اصلیت کھل کر سامنے آگئی ہے۔



اس سال کا عورت مارچ بہت ہی خوش آئند اور امید افزا بات ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عورت نے اپنے ہونے کا احساس ہی نہیں دلایا ہے بلکہ ہلا کے رکھ دیا ہے۔ جیو عورت۔ عورت اگر کہتی ہے کہ میرے جسم کو گھورا نہ جائے، مجھے جنسی طور ہراساں نہ کیا جائے، مجھے مال کہہ کر نہ پکارا جائے، میرا جسم میری مرضی، تو کیا غلط کہہ رہی ہے؟ عورت کے جسم پر مرد کا حق کیوں ہے؟ کیا عورت اس اذیت سے آزادی کی حق دار نہیں ہے؟



عورت مارچ کی مخالفت کرنے والے یہ چاہتے ہیں کہ عورت ’پیس‘ کے طور پر ہی رہے۔ مذہبی طبقہ، ملا اور نیم ملاؤں کا خوف پلے کارڈ کی تحریریں نہیں عورت مارچ ہے۔ عورت کے سیاسی عمل سے خوف ہے اور یہ خوف اگلے سال مزید گہرا ہوگا۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔