ہم اپنے وطن میں اجنبی ہیں۔ کہنے کو تو پاکستان ہمارا خود مختار ملک ہے۔ مگر ہم اپنے ملک کا کوئی فیصلہ خود نہیں کر سکتے ہیں۔ حکومت میں کون آئے گا، کون نہیں آئے گا؟ بجلی اور گیس کی قیمت کیا ہوگی، کوئی اور ہی طے کرتا ہے۔ ہمارے ووٹ رائیگاں جاتے ہیں۔ منتخب کردہ حکومت کاروبار مملکت کے تمام کام غیرمنتخب اور نیم پاکستانیوں سے کرواتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ الیکشن محض اس لئے کروائے جاتے ہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ کام کرنے کیلئے اچھے بندے کا انتخاب کیا جائے۔ نئے پاکستان کے تخلیق کاروں پر گمان تھا کہ وہ کچھ سچ میں نیا کریں گے۔ پاکستان کی سیاسی اور معاشی خود انحصاری اور خودمختاری کو بحال کریں گے۔ مگر یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔
بطور ووٹر اور پاکستانی، شہری کھائی سے نکلے اور گڑھے میں جا گرے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم آزاد نہیں ہیں۔ معاشی اور سیاسی طور ہم غلامی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ جکڑن ہم نے خود گلے کا پھندہ بنائی ہوئے ہے۔ مملکت خداداد پاکستان میں عمران خان کی پہلی حکومت نہیں ہے، جس نے خود انحصاری و خودمختاری کی جانب جانے کی بجائے غلامی کو ترجیح دی ہو۔ یہ کام بڑے ذوق شوق سے 1958 سے جنرل ایوب خان کے سنہری دور میں شروع کیا گیا تھا جو اللہ کے فضل وکرم سے جاری و ساری ہے۔
اسلام آباد میں کام کرنے والے سنیئررپورٹر رانا ابرار خالد کی ایک رپورٹ کے مطابق گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر پہلے شخص نہیں جنہوں نے آئی ایم ایف کی ملازمت چھوڑ کر پاکستان میں سرکاری عہدہ سنبھالا ہے، اس سے قبل بھی متعدد افراد عالمی بینک، آئی ایم ایف، آئی ایف سی، ایشیائی ترقیاتی بینک اورسٹی بینک و دیگرعالمی مالیاتی اداروں میں ملازم تھے اورانہوں نے پاکستان میں اہم سرکاری عہدے حاصل کیے، جن میں محمد شعیب سب سے پہلے وزیرخزانہ تھے جو 1958 میں عالمی بینک کی ملازمت چھوڑ کر وفاقی کابینہ کا حصہ بنے۔
ان کے بعد مرزا مظفر احمد جو کہ عالمی بینک کے وائس پریزیڈنٹ تھے اور ایوب خان کے دور میں سیکرٹری خزانہ بنے جبکہ جنرل یحییٰ خان کے دور میں ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کے عہدے پرفائز رہے، ڈاکٹر محبوب الحق بھی عالمی بینک میں ڈائریکٹر پالیسی وپلاننگ تھے، ملازمت چھوڑ کر انہوں نے 10 اپریل 1985 کو وفاقی وزیرخزانہ کا عہدہ سنبھالا اور 28 جنوری 1988 کو سبکدوش ہوئے۔ معین احمد قریشی 1981 سے لے کر 1992 تک عالمی بینک کے سینیئروائس پریزیڈنٹ رہے۔ اس سے قبل وہ آئی ایم ایف اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن میں بھی خدمات انجام دیتے رہے۔
8 جولائی 1993 کو انہوں نے نگران وزیراعظم پاکستان کاعہدہ سنبھالا اور 18 اکتوبر 1993 کو سبکدوش ہوئے۔ اس دوران معین قریشی نے سید بابر علی کو اپنی کابینہ میں وزیر خزانہ تعینات کیا جو سبکدوش ہونے کے بعد عالمی بینک میں چلے گئے، شاہد جاوید برکی بھی عالمی بینک میں خدمات انجام دے رہے تھے اورانہوں نے عالمی بینک کی ملازمت چھوڑ کر 11 نومبر 1996 کو نگران وفاقی وزیر خزانہ کاعہدہ سنبھالا اور 17 فروری 1997 کو سبکدوش ہوئے۔
سرتاج عزیز جو کہ 25 فروری 1997 کو وفاقی وزیر خزانہ بنے، قبل ازیں 1984 میں بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی کی ملازمت چھوڑ کروزیر مملکت برائے خوراک و زراعت بنے تھے اور 1988 میں سبکدوش ہوئے۔ ان کے بعد اسحاق ڈاربھی ڈائریکٹر عالمی بینک اور وائس چیئرمین بورڈ آف گورنرز ایشیائی ترقیاتی بینک کی ملازمتیں کرتے رہے۔ وہ 7 نومبر 1998 تا 12 اکتوبر 1999، 31 مارچ تا 13 مئی 2008 اور 7 جون 2013 تا 28 جولائی 2017 کے دوران تین مرتبہ وفاقی وزیرخزانہ کے اہم عہدے پربراجمان رہے۔
شوکت عزیر جو کہ سٹی بینک میں بیرون ملک خدمات انجام دے رہے تھے وہ ملازمت چھوڑ کر 12 اکتوبر 1999 کو وفاقی وزیر خزانہ بنے جبکہ 28 اگست 2004 کو وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہوئے اور 15 نومبر 2007 کو سبکدوش ہوئے۔
اسی طرح ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ بھی عالمی بینک میں خدمات انجام دے رہے تھے اور ملازمت چھوڑ کر 2003 تا 2006 وفاقی وزیر برائے نجکاری کا عہدہ سنبھالے رکھا۔ اس کے بعد 18 مارچ 2010 تا 19 فروری 2013 کے دوران وفاقی وزیرخزانہ رہے جبکہ سبکدوش ہونے کے بعد دوبارہ عالمی بینک میں ملازمت اختیار کی اور 18 اپریل 2019 کو ایک مرتبہ پھرعالمی بینک کی ملازمت چھوڑ کر بطور مشیر خزانہ حکومتی عہدہ سنبھالا ہے۔
اس ساری رام لیلا میں ایک امر واضح ہوتا ہے کہ فیصلہ سازی منتخب حکومت اور وزیراعظم کی بجائے ایک بالادست طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے تنخواہ خوار بھی بالادست طبقے کی ملی بھگت سے حکومت کا حصہ بنتے ہیں۔ عمران خان حکومت میں وزرا کی تبدیلیوں سے لے کر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لئے مذاکرات کے امور حکومت سے بالا بالا ہی دکھائی دیتے ہیں۔
عمران خان کو ہم نااہل کہہ سکتے ہیں۔ ناتجربہ کار کہہ سکتے ہیں۔ مگر عالمی مالیاتی اداروں کے ملازمین کی حکومت میں شمولیت میں ملوث نہیں کہہ سکتے۔ یہ فیصلہ عمران خان کا بالکل نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کنٹینر پر بھی اپنی مرضی سے نہیں چڑھے تھے۔ اقتدار کے دس ماہ عمران خان نے بالادست طبقے کی انگلی پکڑ کر گزارے ہیں۔ معاشی، مذہبی اور سیاسی بیانیہ ریاستی ہے۔ ریاست ہی سب کچھ کر رہی ہے۔ عمران خان بے بس ہے۔ لاچار ہے۔ یااللہ یا رسول عمران خان بے قصور۔