ایک بہت ہی پرانا گھسا پٹا لطیفہ ہے کہ استاد نے شاگرد سے پوچھا کہ بتاؤ وہ کون سی جگہ ہے جہاں نفسا نفسی ہوگی، باپ بیٹے کو، بیٹا باپ کو اور بھائی بھائی کو نہیں پہچانے گا۔ تو معصوم بھولے بھالے شاگرد نے برجستہ جواب دیا ’ شادی کا کھانا‘۔ کہنے کو تو یہ لطیفہ ہی ہے لیکن سچ جانیں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں شادی کی ایک تقریب میں جانا ہوا، تاخیر سے پہنچے تھے، اسی لئے ایک موصوف سے کورونا وبا کی وجہ سے طویل عرصے بعد ملنے پر اُن کا حال احوال ہی پوچھ رہے تھے کہ پل بھر کو اُن کی جانب سے نگاہ ہٹی اور جب دوبارہ ہم کلام ہوئے تو وہ مدمقابل تھے ہی نہیں، ایسا لگا کہ زمین کھا گئی یا آسمان، نظریں گھمائیں تو وہ ایک میز کی جانب یوسین بولٹ کو شکست دینے کے ارادے سے دوڑ لگا چکے تھے۔ پھر میزبانوں کا یہ اعلان ہماری سماعت سے گزرا کہ ’کھانا کھل گیا ہے‘۔ وجہ بخوبی سمجھ میں آ گئی۔
چند لمحے پہلے مہمان جو مہذبانہ انداز میں بیٹھے تھے، انہیں ارطغرل کے گھوڑے کی طرح کھانے کی طرف سرپٹ بھاگتے دیکھا۔ کسی کے ہاتھ میں پلیٹ تو کوئی دولہا کا چمچہ ہونے کے باوجود خود اپنے چمچے کی تلاش میں، تو کہیں ٹھنڈے مشروبات کے حصول کے لئے پانی پت کی جنگ، جس کے ہاتھ میں پلیٹ آ گئی تو اس نے بریانی یا قورمے کی جانب یلغار کر دی، بوٹیوں کو دشمن کا لشکر سمجھ کر ان پر چڑھائی کا ہی منظر تھا۔ سچ پوچھیں جناب عجیب سی افرا تفری اور بھگڈر مچی تھی۔
دلچسپ منظر تو اُس وقت دیکھنے کو ملا جب کسی ایک کے ہاتھ میں کفگیر ہوتا ہے اور اُس کے پیچھے کفگیر پر حاکمیت جمانے والوں کی ایک لمبی قطار۔ بس اسے رکھنے کی دیر ہوتی ہے، پھر کسی اقبال کے شاہین کی طرح کفگیر پر لپکنا بھی دیکھا۔ خیال آیا کہ شاعر نے غالباً انہی کے لئے یہ مصرعہ تخلیق کیا تھا کہ ’جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا‘۔ پلیٹ کو عمرو عیار کی ’زنبیل‘ سمجھ کر ہر چیز بھری جا رہی تھی۔ ایسی ہی لبالب پلیٹ کو دیکھنے کے بعد ہم نے ایک موصوف پر ازراہ مذاق یہ جملہ کس دیا ’حضور پلیٹ میں چمچے کی تو جگہ چھوڑ دیں۔‘ جنہوں نے اس کا بدلہ یہ لیا کہ جھٹ دو تین اور بوٹیوں کا پلیٹ میں ’کے ٹو‘ بنا ڈالا۔
شادیوں میں کھانے کے ماہر ہمارے ایک دوست اِسے بھی آرٹ کا درجہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے مطابق ہمیشہ سب سے پہلے بریانی پر ہاتھ صاف کرو، قورمہ، چکن کڑائی پر نہیں، ہر ممکن کوشش کرو کہ روغنی پکوان سے دور رہو۔ ان کاتو یہ بھی فرمان ہے کہ ایسے کھانے سب سے آخر میں پیٹ کے مہمان بنانے چاہئیں۔ پھر کبھی بھی ایک ہی مقام پر بیٹھ کر کھانے کی کوشش مت کرو، بلکہ مختلف جگہیں بدل بدل کر کھاؤ۔ وجہ یہ بیان کرتے کہ اس طرح میز پر خالی پلیٹس کا انبار اس بات کی چغلی نہیں کھائے گا کہ یہ طوفان آپ نے برپا کیا ہے۔ یہی نہیں جناب وہ تو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ مشروبات کا استعمال کم کریں، کیونکہ پیٹ میں اگر پانی بھر جائے گا تو کھائیں گے کیسے؟ خیر ہم نے تو اس کے برعکس شادی بیاہ میں ٹھنڈے مشروبات کی بوتلوں پر بچوں سے زیادہ بڑوں کو مے نوشوں کی طرح پیتے دیکھا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ جب جب کیمرا مین، ویڈیو بنانے آئے تو موقع واردات سے ایسے کھسک جائیں، جیسے مقروض ہوتا ہے۔
درحقیقت المیہ یہ ہے کہ دولہا ہو یا دلہن، ان کے گھر والے رقم پانی کی طرح بہا کر مختلف پکوان ترتیب دیتے ہیں اور مہمان ان میں کوئی نہ کوئی نقص نکال کر چلتے بنتے ہیں۔ کھانے کے نام پر اتنا خرچ کیا جاتا ہے کہ شادی کے دیگر لوازمات کے مقابلے میں اس کا حجم برابر ہی آتا ہے۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ’ذرا چکھنے‘ کے چکر میں مہمان صاحبان پلیٹس کو نوحؑ کی کشتی کی طرح بھر لیتے ہیں۔ دو تین نوالے کے بعد متعلقہ کھانے کو ادھورا چھوڑ کر کسی اور پکوان کی جانب پیش قدمی کی جاتی ہے۔ کوشش ہی نہیں کی جاتی کہ اتنا ہی نکالیں، جتنا کھا سکیں۔ لیکن ’کہیں ختم نہ ہوجائے‘ کا دھڑکہ انہیں مجبور کر دیتا ہے کہ ایک بار ہی میلہ لوٹ کر آئیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنا خرچ کرنے کا بوجھ ہم نے دونوں گھرانوں پر کیوں لازم و ملزم کر دیا ہے؟ شان و شوکت، دبدبے اور رتبے کے خاطر بھی یہ فضول خرچی کی جانے لگی ہے۔
کوئی چار پانچ سال پہلے کی بات ہے کہ سندھ اسمبلی میں ’ون ڈش‘ کا قانون منظور کرایا گیا لیکن جن محترمہ نے یہ بل پیش کیا، ان کی اپنی شادی میں سنا ہے انواع و اقسام کھانوں کی بھرمار تھی۔ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ اُن کے گاؤں میں رہنے والی برادری یتیم خانے میں شادی کی تقریبات کا فخریہ اہتمام کرتی ہے۔ یتیم خانے میں پرورش پانے والے بچے کیٹرنگ کی ذمے داری نبھاتے ہیں۔ جب کہ یتیم خانے کے سبزہ زار میں ہی شادی کا ٹینٹ لگتا ہے۔ بچے ویٹرز ہوتے ہیں۔ جنہیں معقول معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو کھانا بچ جاتا ہے، اس میں سے ایک حصہ رکھ کر باقی یتیم خانے کو عطیہ کر دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تو یہ بھی تھا کہ بیشتر یتیم خانوں میں بے سہارا بچوں کو مختلف شعبہ جات کے بارے میں باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے، جو ان کا ذریعہ معاش بننے میں معاون ثابت ہوں۔ دوست کی بات سن کر ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ہمارے شہروں میں اگر کوئی یتیم خانے میں شادی کا انعقاد کرنے کا ارادہ کرے تو ’لوگ کیا کہیں گے‘ کی زنجیر ان کے پیروں میں آپڑے گی۔