گزشتہ روز اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی طالبات نے اساتذہ کی جانب سے ‘ہراساں‘ کیے جانے احتجاج کیا اور اس عمل میں ملوث اساتذہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
اطلاعات کے مطابق ہراساں کیے جانے کے واقعات پر طالبات احمد فراز بلاک میں جمع ہوئیں اور نعرے لگاتے ہوئے وائس چانسلر آفس کی طرف مارچ کیا۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف اساتذہ بلکہ لڑکے طالبعلم بھی قابل اعتراض جملے کستے ہیں اور کیمپس میں ان کا راستہ روکتے ہیں۔
طالبات کا کہنا تھا کہ ہراساں کیے جانے کی شکایات کو دیکھنے کے لیے انتظامیہ کو ایک فوکل پرسن مقرر کرنا چاہیے کیونکہ اس معاملے کے لیے قائم موجودہ کمیٹی صرف کاغذی کاروائی ہی کرتی ہے اور اس کمیٹی نے بھی تک مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر ہراساں کیے جانے کے خلاف نعرے درج تھے۔ ان کا انتظامیہ سے مطالبہ تھا کہ طالبات کی جانب سے درج کروائی گئی مختلف شکایات کا نوٹس لیں۔ مظاہرین کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ اساتذہ نے امتحانی پرچوں اور تحقیقی منصوبوں کی چیکنگ کے دوران طلبہ کو ہراساں کیا لیکن متعلقہ حکام نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
مظاہرے میں دیگر جامعات کے طلبہ و طالبات نے بھی شرکت کی اور کام کے مقام پر خوانین کو ہراساں کیے جانے کے قانون ( ہراسمنٹ آف وومن ایٹ ورک پلیس ایکٹ) 2010 کی روشنی میں ایک ہراسمنٹ کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا تاکہ طالبات کو اساتذہ کی جانب سے ان کو دی جانے والی دھمکیوں اور دیگر دباؤ کے طریقے سے بچایا جاسکے
مظاہرین نے طالبات کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کو ہراساں کرنے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کو پیش آنے والے اس بڑے مسئلے پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ’ہم طلبہ کو ہراساں کرنے میں ملوث ہر شخص کو بےنقاب کرنے کی اپنی ہر ممکن کوشش کریں گے، ہم اس عمل کے خلاف شعور بیدار کرنے اور طالبات کو اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے قابل بنانے پر کام کریں گے‘۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں کی خواتین سے خاموشی توڑنے اور ایسے اساتذہ کے خلاف ڈٹ جانے کا مطالبہ کیا جو طلبہ کو تنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مظاہرے میں شریک طلبہ و طالبات کا کہنا تھا کہ احتجاجی مہم جاری رہے گی اور اس دوران سیمینارز اور واکس منعقد کی جائیں گی تاکہ کمپسز میں جرم کے پیچھے چھپے چہروں کو بے نقاب کیا جائے۔