نشہ یا موت کا سوداگر ۔ ۔ ۔

نشہ یا موت کا سوداگر ۔ ۔ ۔
نشے کے منفی اثرات سے لوگ عموماً واقف ہوتے ہیں ، پھر بھی کئی لوگ اس کے جال میں پھنستے رہتے ہیں ۔ اپنے ذاتی مسائل سے چھٹکارا پانے کے لئے لوگ منشیات کا سہارا لیتے ہیں ۔ کچھ لوگ اپنی تجسس کو پورا کرنے کے لئے اس سے مسحور ہونا چاہتے ہیں ۔ یا پھر اپنی شرمندگی یا ہچکچاہٹ کو مٹانے کے لئے منشیات لیتے ہیں ۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو دوستوں اور بری صحبت سے متاثر ہو کر نشہ شروع کرتے ہیں ۔ دوسرے ان کا مذاق نہ اڑائیں اس لئے وہ دباؤ میں آکر نشہ کرنے لگتے ہیں ۔ وقتی طور پر نشہ انہیں اپنے احساسِ کمتری کو بھلانے میں مدد کرتا ہے ۔


نشے کا عادی بننے میں کئی مراحل شامل ہیں ۔ جب نشے باز نشہ کرتا ہے شروع میں نشہ اس کے مسائل کا حل معلوم ہوتا ہے ۔ وہ خود کو بہتر محسوس کرنے لگتا ہے ۔ نشہ اس کی زندگی میں ایک اہم مقام لینے لگتا ہے ۔ دھیرے دھیرے وہ نشے کی مقدار کو بڑھانے لگتا ہے ۔ اس طرح وہ جال میں پھنس جاتا ہے ۔ وہ بس نشہ حاصل کرنے کے بارے میں سوچتا ہے۔

اب وہ اپنے دوستوں اور گھر کے افراد سے اپنی لت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے ۔وہ اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر نشہ خریدنے کے لئے جھوٹ بولنے لگتا ہے اور چوری بھی کرنے لگتا ہے ۔ اب احساس ندامت کے باعث وہ تلملانے لگتا ہے ۔ وہ دوسروں سے دوری اختیار کرنے لگتا ہے اور اسے کوئی بھی چیزمنطقی طور پر سمجھانا مشکل ہے ۔

وہ عجیب و غریب رویہ بھی اختیار کرنے لگتا ہے ۔ گھر والوں اور عزیز و اقرباء سے اس کے تعلقات الجھنے لگتے ہیں ۔ ملازمت میں اس کی کارکردگی میں نمایاں گراوٹ آتی ہے ۔ وہ اکثر غیر حاضر رہتا ہے اور اس کی نوکری ہاتھ سے جاتی رہتی ہے ۔ اس مرحلے میں وہ پوری طرح نشے کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے ۔

نشے باز کا جسم نشے کا آہستہ آہستہ عادی ہونے لگتا ہے۔ اب وہ نشہ لینے کے لئے ہاتھ پیر مارتا پھرے گا۔ وہ پوری تقویت سے نشے کو خرید کر لینے کی کوشش کرے گا کیونکہ نشے کی کمی سے اس کا جسم تڑپنے لگتا ہے اور اس کے جسم میں شدید درد و کرب اٹھنے لگتا ہے، وہ خود کو بیمار محسوس کرتا ہے اور اس کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔


اب وہ ایسے نشے کی تلاش کرتا ہے جس سے اسے آرام ملے ۔ نشہ کے اثر کی کمی محسوس ہوتے ہی اس کی حالت جہنم کی طرح بدترہو جاتی ہے ۔ وہ سکون پانے کے لئے نشے کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے ۔ اس کے بغیر وہ کوئی کام انجام نہیں دے پائے گا ۔ اس موڑ پر وہ نشہ کا مکمل عادی ہوجاتا ہے اور اس کی زندگی کا دارومدار صرف نشہ ہے۔

نشہ ایک ہشاش بشاش انسان کی طیعت میں نمایاں تبدیلی لاسکتا ہے ۔ ایک خوش اخلاق وحشی جیسا ہوسکتا ہے۔ مزاج میں چڑچراپن آجاتا ہے، وہ غصّہ میں لوگوں پر حملہ کرنے لگتا ہے۔ وہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے تاکہ دنیا کو اس کی بری عادت کا علم نہ ہو۔ وہ اپنے خاندان، اپنے احباب اور اپنے مالک کو دھوکا دینے لگتا ہے، جھوٹ بولتا ہے اور علحیدگی اختیار کرنے لگتا ہے۔

نشہ انسان کے ذہن پر تذبذب کی حالت طاری کردیتا ہے اور وہ کھل کر صاف فیصلہ لینے کی استطاعت کھو دیتا ہے۔ ایک نشہ بازکا ذہن قرب و جوار کے ماحول کو الگ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ بس نشے کو اپنا ساتھی مانتا ہے اور یہ لت اس کے جسمانی اور ذہنی اعضا پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کے رویہ میں تغیر رونما ہونے لگتی ہے ۔ اس کے جسم کے اعضا دھیرے دھیرے خراب ہونے لگتے ہیں ۔ اس طرح جسم کئی بیماریوں اور وبا کا شکار ہونے لگتا ہے ۔

کئی سڑک حادثے، جرم جیسے کہ عصمت دری، چوری اور لڑائی جھگڑے نشے کی حالت میں کی جاتی ہیں ۔

جرم کی دنیا کی کئی منزلیں ہیں اور اکثر و بیشتر ان کو نشے کی تجارت اور منشیات سے جوڑا جاتا ہے۔ نشے کے کاروبار کے خلاف لڑنے سے اور نشے باز کا خیال رکھنے سے ملک کی معیشت پر اثر براہ راست اثرہوتا ہے۔ نشہ دراصل ایک ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے ۔ نوجوان جو اپنے ملک کو آگے لے جاسکتے تھے، نشہ کی زد میں آکرسب برباد کردیتے ہیں ۔

منشیات کو روکنا ہر ایک کی ذمے داری ہے ۔ اس کی روک تھام میں والدین، خاندان اور معاشرہ اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ نوجوانوں کو اس کے بارے میں متنبہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اس جال میں نہ پھنس جائیں۔ ان میں اتنی ہمت ہونی چاہئے کہ جو بھی انہیں نشیلی چیز دے وہ منع کر سکیں اگرچہ وہ ان کا کوئی قریبی ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے قوتِ ارادی کو مضبوط ہونا چاہئے تاکہ وہ اس کا شکار نہ بن جائیں ۔

اس ضمن میں سرکار نے کئی قوانین عائد کیے ہیں۔ رفاعی جگہوں پر سگریٹ پینا منع ہے، اس کے علاوہ نوجوانوں کو شراب بیچنا یا دینا منع ہے۔ سکولوں اور کھلم کھلا شراب کا  استعمال کرنا بھی منع ہے۔ منشیات لینا اور اس کی تجارت قانوناً جرم ہے۔