22 اگست کی رات آنے والا سیلاب فضل ربانی اور اس کے خاندان پر قیامت برپا کر گیا۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ گھر سے بے دخلی ان کے لئے ساری زندگی کا روگ بن سکتا ہے۔ ان کے دو معصوم بچے ایسی حالت میں موت کے منہ میں چلے گئے جب ان کا خاندان سیلاب سے جان بچا کر ایک محفوظ مقام پر پناہ لے چکا تھا۔
فضل ربانی کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے رات کو ہی اعلان کیا گیا تھا کہ بارش زیادہ ہو جانے کی وجہ سے دریا کے کنارے واقع تمام مکانات کو شدید خطرات لاحق ہیں لہٰذا انہیں فوری طور پر گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لے لینی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کے تمام افراد راتوں رات دریا عبور کر کے دوسرے کنارے پر قائم عارضی کیمپ میں پناہ گزین ہو گئے اور دو دن وہاں موجود رہے۔ تاہم تیسرے دن ان کے دو بچے، سات سالہ بیٹا ابوبکر اور نو سالہ بیٹی علینہ کیمپ کے قریب واقع تالاب کے قریب کھیلتے ہوئے پانی میں گرے اور دونوں جاں بحق ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کیمپ میں ہی تھے کہ اچانک چیخ و پکار شروع ہوئی، باہر نکلے تو دور سے لوگ انہیں زور زور سے پکار رہے تھے کہ ان کے بچے پانی میں گر گئے ہیں۔
فضل ربانی کے مطابق وہ اور اس کے والد بھاگ کر پانی میں کود گئے اور کافی دیر تک بچوں کو تلاش کرتے رہے لیکن بچے نہیں ملے۔ ایک گھنٹے کے بعد ریسکیو کا عملہ آیا اور انہوں نے کشتی کے ذریعے دونوں بچوں کی لاشیں نکالیں۔ ان کے بقول ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ یہ تالاب اتنا گہرا ہوگا۔ وہاں قریب کیمپ میں پناہ گزین تھے اور بچے بھی کھیل رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ہفتے تک ہمارا پورا خاندان سکتے کے عالم میں رہا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ابوبکر اور علینہ کہاں چلے گئے۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن جب آنکھیں کھولتا ہوں تو وہ وہاں نہیں ہوتے ہیں۔
ان کے بقول میری ماں ابوبکر اور علینہ کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کر پائی جس کی وجہ سے ان کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔ وہ اکثر اوقات رات کو اچانک اٹھ کر کہتی ہیں؛ کہاں ہیں ابوبکر اور علینہ، مجھے ان کے پاس جانا ہے۔ دن کے وقت بھی وہ کبھی کبھی آس پڑوس میں جا کر ابوبکر اور علینہ کے بارے میں پوچھتی رہتی ہیں۔
فضل ربانی کا تعلق ضلع چارسدہ کے علاقے شاہ بڑہ سے ہے۔ شاہ بڑہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں سو کے قریب گھرانے آباد ہیں اور یہ دیہاتی علاقہ دو دریاؤں جیندی اور خیالی کے درمیان میں واقع ہے۔
فضل ربانی اور اس کا خاندان برسوں سے غربت کا شکار رہا ہے۔ وہ دریا کے کنارے واقع جنگل سے لکڑی نکالنے کا کام کرتا ہے جس سے ان کا بمشکل سے گزر بسر ہوتا ہے۔ سیلاب آنے کے بعد ان کا کام بند ہو گیا ہے اور آج کل فضل ربانی اور ان کے خاندان کا انحصار حکومت یا مخیر حضرات کی طرف سے ملنے والی امداد پر ہے جو بقول ان کے کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں ملتی۔
فضل ربانی کا کہنا ہے کہ گھر بار چھوڑنے کے بعد ہم ایک ہفتے تک اپنے خاندان سمیت پناہ گزین کیمپ میں مقیم رہے تاہم پانی اتر جانے کے بعد اب واپس اپنے گھر آ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے تقربناً پانچ فٹ تک ان کا گھر پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور اب پانی تو اتر گیا ہے لیکن گھر میں دو دو فٹ تک مٹی بدستور پڑی ہوئی ہے جسے وہ خود اپنی مدد آپ کے تحت نکال رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے ان کا روزگار ختم ہو گیا ہے اور آنے والے دنوں میں ان کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
خیبر پختون خوا میں گذشتہ ڈیڑھ مہینے سے ہونے والی ملسل بارشوں اور تباہ کن سیلاب کی وجہ سے اب تک صوبہ بھر میں تین سو کے قریب افراد ہلاک اور ساڑھے تین سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
سیلاب کی وجہ سے یوں تو پورا خیبر پختون خوا متاثر ہوا ہے لیکن صوبے کے کل 34 اضلاع میں سے 17 اضلاع کو شدید نقصان پہنچا ہے جنہیں اب حکومت کی طرف سے آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری ہونے والے تازہ اعداد و شمار کے مطابق بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے پورے صوبے میں 88 ہزار مکانات کو نقصان پہنچا ہے جن میں سے 35 ہزار گھر مکمل طور پر پانی میں بہہ گئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق اب تک حکومت کی طرف سے 4 لاکھ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے جبکہ سیلاب کی وجہ سے صوبہ بھر میں کل 6 لاکھ 9 ہزار افراد بے گھر ہو کر پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں یا اپنے رشتے داروں کے ہاں مقیم ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان تیمور علی کا کہنا ہے کہ 8 لاکھ 5 ہزار سیلاب متاثرین کو خشک یا پکی ہوئی خوراک مہیا کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق پی ڈی ایم اے کی طرف سے جولائی کے بعد سے اب تک سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے متاثرہ علاقوں میں ضلعی انتظامیہ کو 1750 ملین کی رقم جاری کی جا چکی ہے۔
چارسدہ کے نوجوان کاشف بھی ان بدقسمت لوگوں میں شامل ہیں جو گھر سے دوسروں کو بچانے کے ارادے سے نکلے تھے لیکن خود دریا کی بپھری ہوئی موجوں کا شکار ہو گئے۔
کاشف کے دادا عصمت اللہ کا کہنا ہے کہ جب سیلاب آیا تو چارسدہ کے دریاؤں جیندی اور خیالی میں پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا پوتا کاشف اپنے چار دوستوں کے ہمراہ کشتی کے ذریعے اس ارادے سے دریا میں اتر گیا کہ اگر کوئی مشکل میں ہو تو ان کی جان بچائی جائے۔ لیکن کسی کو بچانے کی بجائے وہ خود موت کے منہ میں چلا گیا۔
عصمت اللہ کے مطابق پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے ان کی کشتی الٹ گئی اور کاشف پانی میں بہہ گیا جب کہ اس کے چار دوست بھی زخمی ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ریسکیو والوں کی مسلسل کوششوں سے کاشف کی لاش تین دن بعد دریا سے ملی۔ ان کے مطابق کاشف نے لائف سیونگ جیکٹ بھی پہن رکھی تھی لیکن بظاہر لگتا ہے کہ ان کی جیکٹ کسی چیز سے اٹک گئی تھی جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو گئی۔
کاشف کی عمر اٹھارہ سال تھی اور ابھی اس کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ کاشف بنیادی طورپر ملاح تھا اور بچپن سے دریا میں کشتی چلانے کا کام کرتا رہا ہے۔ کاشف کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں جب کہ بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔ ان کا کوئی مستقل روزگار نہیں تھا بلکہ گھر کا واحد کفیل ہونے کی وجہ سے وہ روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدوری کر کے خاندان کا پیٹ پالتا تھا۔
کاشف کے دادا عصمت اللہ کا مزید کہنا ہے کہ کاشف کے والد زندہ ہیں تاہم وہ آئیس کے نشے کا عادی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی کام کاج کے قابل نہیں بلکہ انہیں تو شاید اس بات کا ہوش بھی نہ ہو کہ ان کا جوان لخت جگر اب اس دنیا میں نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ کاشف کے چلے جانے کے بعد اب اس کے خاندان میں کمانے والا کوئی نہیں رہا، اب تو اللہ ہی اس گھرانے پر رحم فرمائے۔
مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔