کون ہے کے الیکٹرک کا اصل مالک؟ یہ وہ سوال ہے جس نے کئی سال سے قوم کی راتوں کی نیند چھین رکھی تھی۔ کئی کئی گھنٹے بلکہ کبھی کبھی تو کئی کئی دن بجلی بند رہے تو صلواتیں کس کو سنانی ہیں، یہ سوال تھا جس کا کوئی ایک جواب نہیں تھا۔ لیکن بالآخر کمپنی کے مالکان کی آپسی لڑائی میں یہ معمہ تو حل ہو گیا ہے۔
جہاں اصل لڑائی کراچی اور کیمن آئی لینڈز کی عدالتوں میں لڑی جا رہی ہے، ملکی اخبارات کے کاروباری صفحات پر کے الیکٹرک کے اکثریتی حصص کی ملکیت پر ایک علیحدہ ہی جنگ جاری ہے۔
تو جناب حقائق کچھ یوں ہیں؛ کے الیکٹرک کے 24.4 فیصد حصص حکومتِ پاکستان کی ملکیت ہیں جب کہ 66.4 فیصد حصص کیمن آئی لینڈز میں رجسٹرڈ کمپنی KES Power Ltd کے پاس ہیں۔ باقی کے بچے کھچے حصص عوام اور مختلف سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں۔
لیکن KES Power Ltd میں کس کے حصص کتنے ہیں، یہ معاملہ حل طلب تھا۔ ایک گروپ دعویٰ کرتا تھا کہ اکثریتی حصص اس کے ہیں جب کہ دوسرے گروپ کا دعویٰ اس کے متضاد تھا۔
اب تاہم کراچی الیکٹرک (کے ای) کے چیئرمین مارک سکیلٹن نے تصدیق کی ہے کہ کراچی الیکٹرک میں Infrastructure and Growth Capital Fund (IGCF Fund) کے تحت بلا واسطہ ملکیتی حصص محض 5.1 فیصد ہیں۔ اس حیران کن خبر نے شہریار چشتی کی جانب سے ماضی میں کیے گئے ان تمام دعوؤں پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے جن کے مطابق ان کے کراچی الیکٹرک میں اکثریتی حصص ہیں۔
معروف بین الاقوامی کنسلٹنگ کمپنی Alvarez and Marsal سے لیک شدہ دستاویزات کے مطابق شہریار چشتی IGCF Fund میں محدود حیثیت کے شراکت دار ہیں اور اس حیثیت میں یہ کے ای میں 5.1 فیصد بلاواسطہ حصص کے مالک ہیں۔ 'نیا دور' کے پاس موجود دستاویز پر مارک سکیلٹن کے دستخط موجود ہیں جو کہ کے ای کے موجودہ چیئرمین ہیں اور اس کی کیمن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ مالک کمپنی KES Power Limited کے بھی چیئرمین ہیں۔ یہ IGCF Fund کے تحت چلنے والی IGCF General Partner Limited کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ Alvarez & Marsal Europe LLP کے منیجنگ ڈائریکٹر بھی ہیں۔
اس دستاویز پر کے ای اور KESP کے دستخط 11 جولائی 2023 کے ثبت ہیں اور یہ دستاویز ایک قانونی معاملے کے لئے استعمال کی گئی تھی۔ اس تصدیق شدہ دستاویز کا عنوان "KES Power Limited (IGCF) – entities holding greater than 5% economic beneficial (indirect) interest in KE as of 11 July 2023" ہے۔
پاکستانی میڈیا میں پچھلے کچھ ماہ سے یہ معاملہ زیرِ بحث ہے کیونکہ شہریار چشتی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ کے ای میں اکثریتی حصص کے مالک ہیں، اور ایسی اطلاعات بھی آئی تھیں کہ کمپنی میں ان کے پاس قابلِ ذکر حصص موجود ہیں۔
اصلی سعودی اور کویتی سرمایہ دار، الجمیح اور NIG، پہلے دن سے اس دعوے کو مسترد کرتے آ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کے ای میں 30.7 فیصد بلاواسطہ حصص موجود ہیں اور یہ کہ شہریار چشتی کا اکثریتی حصص رکھنے کا دعویٰ غلط بیانی پر مبنی ہے۔ کے ای اور KESP کے چیئرمین کی جانب سے بھی اب اسی دعوے کی تائید کی گئی ہے۔
یہ لیک شدہ دستاویز جو 'نیا دور' کے ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر شیئر کی ہے، اس پر مارک سکیلٹن کے دستخط موجود ہیں، اس کے بعد حقائق کیا ہیں، اس پر کوئی ابہام باقی نہیں رہ گیا لیکن اس سے کچھ نئے سوالات نے ضرور جنم لیا ہے۔
اس دستاویز میں IGCF Fund کی کے ای میں شراکت کی نوعیت اور اس کی ملکیت کے حوالے سے مفصل معلومات موجود ہیں۔ اس دستاویز سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ سعودی اور کویتی سرمایہ داروں کے بعد KESP میں تیسرے شراکت دار IGFC SPV 21 کے تقریباً 30 فیصد حصص مشرق بینک کی ملکیت ہیں۔ یعنی عملی طور پر کے ای میں 10.5 فیصد بلاواسطہ حصص کی ملکیت مشرق بینک کے پاس ہے۔ اس کا تقابل اگر شہریار چشتی کے ملکیتی حصص سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان سے دگنے حصص تو مشرق بینک کی ملکیت ہیں۔
کے ای میں شہریار چشتی کے حصص انہوں نے IGFC Fund کے محدود شراکت دار کی حیثیت رکھنے والے مختلف سرمایہ داروں سے خرید کر حاصل کیے ہیں۔ IGFC Fund جو کہ 2008 میں قائم کیا گیا تھا، اس میں ابتدا میں 80 سے زائد سرمایہ دار شامل تھے۔ یہ سرمایہ کاری 15 سال کے عرصے پر محیط ہے جو کہ ابتدا میں لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ طویل عرصہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے سرمایہ داروں کی اس میں دلچسپی کم ہوتی گئی اور انہوں نے اپنے حصص بیچ دیے۔
لہٰذا 2005 میں نجکاری کے وقت سے ہی کمپنی میں سب سے زیادہ حصص (30.7 فیصد) سعودی اور کویتی سرمایہ داروں کے ہیں اور اسی حساب سے اس کے منافع میں بھی سب سے زیادہ حصہ انہی کا ہے۔ اس کے بعد دوسرا نمبر (10.5 فیصد) مشرق بینک کا آتا ہے جو کہ شاید ان حصص کا مالک محض اس لئے بن گیا کیونکہ یہ حصص ابراج گروپ کی ملکیت تھے جو کہ اب ختم ہو چکا ہے۔ ان چار گروپس میں سب سے چھوٹا حصہ (5.1 فیصد) شہریار چشتی کا ہے جس کے وہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ کمپنی کی ملکیت رکھنے کی صورت میں حقدار ہیں۔
کے ای کے ملکیتی سٹرکچر سے متعلق تازہ ترین انکشافات نے بہت سی چیزوں کو تبدیل کر ڈالا ہے۔ وہ سرمایہ دار اور سٹیک ہولڈر جو پرانی میڈیا رپورٹس پر بھروسہ کر رہے تھے، اب اس نئی حقیقت سے جوجھ رہے ہیں۔
قانونی ماہرین بھی اس انکشاف سے پیدا ہونے والی نئی صورت حال پر غور و خوض شروع کر چکے ہیں۔ ملکیت کے حوالے سے نئی معلومات سامنے آنے کے بعد کچھ قانونی چیلنجز اور تحقیقات بھی متوقع ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس انکشاف نے ایک بار پھر کاروباری معاملات میں درست اور شفاف رپورٹنگ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
شہریار چشتی کے کراچی الیکٹرک میں حقیقی حصص کے سامنے آنا میڈیا کے لئے بھی ایک سبق ہے کہ نادرست معلومات کی طاقت کیا ہوتی ہے اور مصدقہ اور درست اطلاعات کس قدر ضروری ہیں۔ شہریار چشتی کی ملکیت میں برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ کمپنی Sage کی غیر شفاف اور پوشیدہ طریقے سے کیے گئے کاروبار نے جو غیر یقینی کی فضا قائم کی، وہ عوام الناس کے علم میں اب آ رہی ہیں۔
یہ واقعہ جہاں کاروباری معاملات میں تحقیقی صحافت کے کردار پر روشنی ڈالتا ہے، وہیں آزاد میڈیا کی جانب سے طاقتور اداروں اور شخصیات کے احتساب اور عوام کو باخبر رکھنے کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
ساتھ ہی یہ ریگولیٹری اتھارٹیز کو بھی جگانے کا باعث بننا چاہئیے جو بیرون ملک پیش آئے پوشیدہ اور غیر شفاف کاروباری معاملات کی تحقیق کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں، وہ بھی ایک اثاثے کے معاملے میں جو پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔