بنگلہ دیش میں ایک نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے ماضی کے ذاتی اور قومی معاملات کو چکا کر اب ملک کی نظریاتی اساس کو ایک خاص رخ دیا جا رہا ہے۔
پہلے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ان اراکین کو پھانسی دی گئی جو بنگلہ دیش کی حسینہ واجد سرکار کے مطابق 1971 کے فسادات میں بنگلہ دیشی عوام کے قتل عام میں ملوث تھے۔ اب بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کو قتل کرنے والے سابق فوجی افسر عبدالماجد کو پھانسی دے دی گئی ہے۔
شیخ مجیب الرحمن کو آزادی کے 4 سال بعد انکے خاندان سمیت انکی رہائش گاہ پر فوجی بغاوت کی صورت میں قتل کر دیا گیا تھا۔
اس وقت انکی بیٹی حسینہ واجد برسر اقتدار ہیں۔ اور انہوں نے گزشتہ سالوں میں تیزی سے 1971 سے جڑی بنگلہ دیش کی شناخت کو ایک دو ٹوک اور شدت پر مبنی بیانئے میں تبدیل کیا ہے اور اس حوالے سے جماعت اسلامی اور اب اس فوجی افسر جو کہ اپنی عمروں کے آخری حصوں میں تھے انہیں پھانسی پر لٹکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ایسے میں ریاستی ادارے بھی شیخ حسینہ واجد کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
اب تازہ ترین پھانسی پانے والے بنگلہ دیش کے بانی کے قاتل فوجی عبدالماجد کا معاملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ عبد الماجد 1975 کے بعد بنگلہ دیش ہی میں رہے تاہم 1996 میں حسینہ واجد حکومت بننے کے بعد سے وہ بھارت میں پناہ لے چکے تھے۔
چند ماہ قبل انکی واپسی پر انکی گرفتاری ہوئی ان پر کیس چلایا گیا اور صدر کی جانب سے رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد اب عبدالماجد کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے 1998 میں ان تمام فوجی افسران کو موت کی سزا سنا دی تھی جو شیخ مجیب کے قتل میں ملوث رہے تھے۔
تجزیہ کار اسے بیٹی کی جانب سے باپ کے قتل کا بدلہ قرار دے رہے ہیں