نئی آئینی اصلاحات کیلئے اہلِ اقتدارکے نام کھُلا خط!

نئی آئینی اصلاحات کیلئے اہلِ اقتدارکے نام کھُلا خط!
سیاسی حکومتوں نے واضح اکثریت اورمواقع کے باوجود ایسی قانون سازی نہیں کی جس سے غیر سیاسی عناصر کی مداخلت کو کم سے کم کیا سکے۔ سیاسی لوگ شکوہ کناں رہتے ہیں کہ فلاں جج بک گیا، عدالتیں جانبدار ہیں، عسکری ادارے مداخلت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن اپنے ادوارمیں مواقع ملنےکے باوجود آئینی اصلاحات نہیں کرتے۔ میں مولانافضل الرحمان ،میاں شہبازشریف اور اُن کے اتحادیوں سے مخاطب ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پھر ایک موقعہ فراہم کیا ہے آپ اس کا بھرپورفائدہ اٹھائیں اور آئینی اصلاحات کے ذریعے آئندہ کے لیے غیرآئینی اقدامات کے دروازے بند کریں۔

1۔ ایکسٹینشن کے قانون کو ختم کیا جائے اگر کسی محکمہ میں مطلوبہ معیار کا افسر نہیں ملتا تو اس سے نیچے والے افسران کو عارضی چارج دیا جائے یا پروموٹ کیا جائے نہ کہ ریٹائرڈ ہونے والے افسران کو ایکسٹینشن دے کرتعینات کیاجائے۔ ایکسٹینشن سے جہاں دیگر مفسدات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں اُن کے بعد والوں کا حق بھی مارا جاتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جب مجاہد کامران کی مدت وائس چانسلری میں توسیع دی گئی تو تب 27 افراد موجود تھے جو چانسلر کے اہل تھے، ایکسٹینشن کی وجہ سے سب وائس چانسلر بنے بغیر ریٹائر ہوگئے۔

2۔ ڈیپوٹیشن کو مطلق ختم کیا جائے، افواج پاکستان کے افسران کو بڑی سطح پر ڈیپٹویشن پر مختلف محکموں میں افسر لگایا جاتا ہے۔ جو افسر ڈیپوٹیشن پر دوچار سال کے لیے آتا ہے وہ دوسروں کا حق مارنے کے ساتھ ساتھ عارضی قسم کی اقدامات کو پالیسیز میں جگہ دیتا ہے اور اپنے مفادات کو عزیز تر رکھتا ہے۔ اگر کسی محکمہ میں مطلوبہ معیار کے افسران موجود نہیں تو اسی محکمہ کے لوگوں کو پروموشن دے کر کام لیا جانا چاہیے لیکن ڈیپوٹیشن کی آپشن کا خاتمہ کردینا چاہیے۔

3۔ اوفرل ججز کی بھرتی کوروکا جائے، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اکثر جج ایسے وکیل ہوتے ہیں جو امتحان اور پروموشن کے بغیر جج بنتے ہیں۔ یہی طبقہ بعد میں سیاست میں ملوث ہوتا ہے، بِکتا ہے، اپنا مستقبل بناتا ہےاور آئین سے کھلواڑ کرتا ہے۔ پاکستان میں سول اور سیشن جج کے امتحان ہوتے ہیں، تمام ججز کے لیے امتحان لازمی ہونا چاہیے تاکہ وہ امتحان پاس کرکے پرفارمنس کی بنیاد پر ترقی کرتے کرتے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پہنچیں۔

4۔ اسپیشل عدالتوں کے ججز کو حکومتیں اپنی مرضی سے لگاتی ہیں، حکومتیں اپنی پارٹی کے وکلا اور انتخاب ہارنے والے افراد کو نوازنے کے لیے مختلف اسپیشل عدالتوں میں لگاتے ہیں تاکہ وہ چار پانچ سال کمائی کرسکیں جیسے ڈرگ کورٹ، بینکنگ کورٹ وغیرہ۔ ان اسپیشل عدالتوں میں بھی ججز کی تعیناتی جوڈیشل کونسل کے ذریعے ہونی چاہیے اور جوڈیشل کونسل پہلے سے موجود ججز میں سے ہی پرفارمنس کی بنیاد پر اسپیشل عدالتوں میںپروموٹ کرے۔

5۔ اسی طرح مختلف محکموں کے سربراہان لگانے کا اختیار بھی بیوروکریسی کی بجائے حکومتوں کے پاس ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت اپنی مرضی کا بندہ لگاتی ہے، وہ حکومت کی جانبداری بھی کرتا ہے، کمائی بھی کرتا ہے اور بعض دفعہ نااہل بھی ثابت ہوتا ہے جس سے محکمہ کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ ایسے بیسیوں محکمے ہیں جیسے نیب، پاکستان کرکٹ بورڈ، پیمرا وغیرہ۔ اس حوالہ سے بھی قانون سازی ہونی چاہیے ایسے محکموں میں ٹیکنیکل افراد بذریعہ سسٹم تعینات کیے جائیں اور وہ تمام سربراہان گورنمنٹ کے مستقل ملازم ہونے چاہییں۔

6۔ سرکاری نوکریوں کے لیے سکیل سسٹم اور معاوضوں کا سسٹم ایک کیا جائے، مختلف محکموں میں تنخواہ کا معیار اور مالی فوائد مختلف ہیں۔ تاہم جن محکموں میں کام سخت ہے ان کے لیے اضافی الاؤنس رکھے جائیں۔ فورسز میں جانے والوں کے لیے اس طرح کے فوائد رکھے جائیں تاکہ اُن کی نسلیں معاشی طور پر خوشحال رہ سکیں لیکن اس طرح کی تقسیم غیر منصفانہ ہے کہ کچھ فورسز کو پلاٹ دیے جائیں اور کچھ کو کچھ بھی نہیں،منصفانہ تقسیم کے اصول کو بنیاد بنایا جائے۔

ماورائے عدالت قتل اور اغوا کی کارروائیوں کا خاتمہ کیا جائے،ملزم کو اپنی صفائی کے تمام مواقع دینے چاہیں، قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔پہلے سے اغوا شدہ افراد کو پہلی ترجیح میں بازیاب کروایا جائے۔

انتخابی اصلاحات کی جائیں تاکہ دھاندلی کے عنصر کو ختم کیا جاسکے، علاوہ ازیں ارکانِ اسمبلی کا امیدوار بنے کے لیے کرائٹیریا بہتر کیا جائے اسی طرح سینٹ میں ٹیکنوکریٹ کی سیٹس بڑھائی جائیں اور جنرل نشستیں کم کی جائیں۔

9۔ پاکستان کی پارلیمنٹ دوایوانوں پر مشتمل ہے یہی وجہ ہے کہ قوانین میں ترمیم اور قوانین کا خاتمہ مشکل کام ہے۔ اگر نظام ایک ایوان پر انحصارکرتا ہوتا تو نہ جانے اب تک آئین سے کیا کیا نکالاجاچکا ہوتالہذا دوایوان ہونا خیر کی علامت ہیں لیکن صدراورگورنر کا عہدہ طاقت کے ٹکراؤ کے علاوہ کچھ نہیں لہذا ان عہدوں کو ختم کردینا چاہیے۔ تمام اختیارات پارلیمان کے پاس ہوں اور پارلیمان جسے اپنے سربراہ چُنے اُس کے پاس۔

10۔ملک سے سودکے خاتمہ کے لیے سنجیدہ کوشش کی جائے،انتقامی سیاست کا خاتمہ کیا جائے، بدزبانی کی روایت کی حوصلہ شکنی کی جائے، میڈیا کوآزادی دی جائے، سوشل میڈیا پر جعلی بیانیے گھڑنے والوں کا کریک ڈاؤن کیا جائے، سوشل میڈیا یا فون سِمز کے ذریعے کڑوڑوں کے فراڈ ہوتے ہیں اُن کے لیے خاص اقدامات کیے جائیں۔

کامران اشرف صحافت کے طالب علم ہیں۔