اعلیٰ فوجی قیادت کو سابق آرمی چیف سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے

اعلیٰ فوجی قیادت کو سابق آرمی چیف سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے
انگریزی میں ایک کہاوت ہے کہ ایسا کام کبھی بھی نہ کرو کہ پکڑے جانے پر جسے ختم کرنا پڑے۔ پاکستان کے سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بطور آرمی چیف 6 سالہ کیریئر پر یہ کہاوت بالکل سچ ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان میں طاقت کو ہضم کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ ویسے تو یہ مسئلہ عالمگیر نوعیت کا ہے مگر ریاست اور جمہوریت نے انسان کی طاقت کو غلط استعمال کرنے کی جبلت کو کافی حد تک لگام دے رکھی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ریاست اور جمہوریت دونوں مل کر بھی طاقت کے استعمال کو ایک آئینی اور قانونی سانچے میں نہیں ڈھال سکے۔

پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ ہمیشہ سے پاک فوج رہی ہے۔ پاکستان کا آرمی چیف دنیا کے بااثر اور طاقتور ترین افراد کی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ اس عہدے پر جو بھی آتا ہے اس کے لیے بڑا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اس طاقت کو آئین اور قانون کی رُو سے استعمال کرنے کی کوشش کرے۔ اسی لیے جب بھی کوئی آرمی چیف آتا ہے تو اس طاقت کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر ملک و قوم کی بہتری کے لیے اتنا بے چین ہو جاتا ہے کہ اس کو اس طاقت کے ذریعے ضرور کچھ کرنا چاہئیے، نہیں تو تاریخ اس کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ مگر جب وہ ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے ملک اور قوم پر اتنے برے اثرات پڑتے ہیں کہ تاریخ اور قوم دونوں اس کو کبھی معاف نہیں کر پاتے۔

جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو 2016 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف بنایا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنے عہدے اور طاقت کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے انقلاب لانے کی ٹھان لی۔ ایک جمہوری اور منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی واردات باجوہ صاحب کی ناک کے نیچے ہوتی رہی۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے جنرل صاحب بھی عوامی جذبات کے بہاؤ میں بہہ گئے، کیونکہ اس وقت عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ یہ چاہتا تھا کہ عمران خان کو ایک موقع ضرور ملنا چاہئیے۔ نواز شریف کا ویسے بھی فوج اور فوج کے سربراہوں کے ساتھ چلنے کا ٹریک ریکارڈ خاصا متنازعہ رہا ہے۔ مگر پاکستان کی سیاست میں ایک اور مسلمہ حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی وزیر اعظم اپنے جمہوری اختیارات کو استعمال کرکے 'واقعی وزیر اعظم' بننے کی کوشش کرتا ہے تو آرمی چیف کو طاقت کے توازن کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ جنرل صاحب بھی بُغضِ نواز شریف اور حُبِّ عمران خان کے پیش نذر یہ ماننے لگے کہ 'عمران خان کو ایک موقع ملنا چاہئیے'۔

اب تو یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کس طرح 2018 کے الیکشن میں عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ اور پاک فوج کے اداروں کی طرف سے خاص لطف و کرم حاصل تھے۔ آر ٹی ایس کے بیٹھ جانے اورسیاسی وفاداریاں خریدنے کے لیے جہانگیر ترین کے جہاز کی اڑان تک سب طاقتور حلقوں کی ایما پر ہو رہا تھا۔ جیسے تیسے عمران خان کی حکومت بنا دی گئی۔ جیسے جیسے حکومت کے دن گزرتے جا رہے تھے ویسے ویسے اس حکومت کو لانے والوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ کیونکہ اس حکومت اور اس کی لیڈرشپ کے بارے میں جن معجزات کی امید عوام اور مقتدر حلقوں نے لگائی تھی وہ سب ایک سراب کی مانند ثابت ہوئے۔ اس حکومت کا توقعات پر پورا نہ اترنا دراصل حکومت سے زیادہ ان کو لانے والوں کی پریشانی میں اضافہ کر رہا تھا۔

عوام کے اندر عام تاثر یہی پایا جا رہا تھا کہ سارا قصور فوج اور اس کے اداروں کا ہے جنہوں نے اس حکومت کو ان کے اوپر مسلط کیا ہے۔ مخالف سیاسی جماعتوں کو بھی موقع ملا کہ وہ کھل کر اسٹیبلشمنٹ کی اس 'اجتہادی غلطی' پر تنقید کریں۔ عمران خان کی حکومت کو واضح اور واشگاف الفاظ میں 'سیلیکٹڈ' کہا گیا اور اس پروجیکٹ میں شامل جنرل شجاع پاشا، جنرل ظہیر الاسلام اور جنرل فیض حمید کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ نواز شریف نے اکتوبر 2020 میں گوجرانوالہ میں ایک جلسے سے ویڈیو لنک کے ذریعے سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے بھی وہی باتیں کیں جو اس وقت عوام کے اند ہو رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو نہیں بلکہ باجوہ صاحب آپ کو جواب دینا ہوگا۔

عوام اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید اور تذلیل کا نشانہ بننے کے بعد جنرل باجوہ نے اپنے 2018 میں کیے گئے عمل کو درست کرنے کے بارے میں ذہن بنانا شروع کر دیا۔ مگر ابھی تک حالات اس نہج پر نہیں آئے تھے کہ پھر سے اتنا بڑا قدم اٹھایا جاتا۔ کیونکہ ابھی تک حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھے اور وزیر اعظم عمران خان کے مطابق جنرل باجوہ انتہائی سنجیدہ جمہوری مزاج کی حامل شخصیت تھے۔ مگر حالات اس وقت سنگین صورت حال اختیار کر گئے جب آرمی کی قیادت نے اس وقت کے ڈی جی آئی آیس آئی جنرل فیض حمید کو ان کے عہدے سے ہٹا کر کورکمانڈر پشاور تعینات کر دیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے فیض حمید کے ٹرانسفر کو روکنے اور 'واقعی وزیر اعظم' بننے کی کوشش کی جو حسب معمول جنرل باجوہ کو مناسب نہ لگی۔

خود عمران خان بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ ان کی غلطی تھی جس کی وجہ سے ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات خراب ہونے شروع ہوئے۔ عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف مارچ 2022 میں تحریک عدم اعتماد آئی تو عمران خان 2018 والا استحقاق کھو چکے تھے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور جنرل باجوہ نے 'نیوٹرل' رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پاکستان کی اپوزیشن تو پہلے سے ایسے ہی کسی وقت اور موقعے کے انتظار میں تھی۔ عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں چلی گئی۔ جنرل باجوہ اپنے ہی پروجیکٹ کو بظاہر Un-do کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

عمران خان کی حکومت جانے کے بعد جنرل باجوہ کی ساکھ، عزت اور شخصیت کے ساتھ جو ہوا وہ جہاں افسوس ناک ہے وہیں سبق آموز بھی ہے۔ کون سا ایسا الزام نہیں ہے جو جنرل باجوہ اور آرمی کی باقی لیڈرشپ پر نہیں لگایا گیا۔ اس کے بعد ان کی توہین اور تذلیل کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تھمتا نظر نہیں آ رہا۔

جنرل باجوہ کو آخر کس بات کی سزا ملی؟ جنرل صاحب نے اپنی کرسی کی طاقت کے ذریعے سے ملک میں 'انقلاب' لانے کی کوشش کی اور ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا۔ اس انقلاب سے مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی صورت میں ایک اور 'انقلاب' کے ذریعے سے اپنی ماضی کی غلطی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔ جنرل باجوہ کے دونوں کام منصفانہ نہیں تھے۔ جنرل باجوہ ایک انتہائی وضع دار طبیعت کے حامل تھے مگر وہ بھی غلطی کر بیٹھے اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر حکومتوں کو لانے اور گرانے کا سلسلہ شروع کر بیٹھے جس نے ان کے کیریئر کو داغ دار کرنے کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے ادارے کو بھی عوام کی نظروں میں شدید متنازعہ بنا دیا۔

جنرل باجوہ کی مثال سے فوج کی قیادت کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی ایسا کام نہ کریں کہ جب پکڑے جائیں تو اس غلطی کو سدھارنے کے چکر میں اپنی اور اپنے ادارے کی عزت اور آبرو سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ پاک فوج کی لیڈرشپ کو اپنی کرسی کی طاقت کو مہار ڈال کر اس کو آئین اور قانون کے تابع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے پاک فوج کی لیڈرشپ کا یہ اقدام پاکستان میں کسی واقعی 'اصلی انقلاب' کی نوید سنا دے۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔