پاکستانی سیاست میں مجھے کیوں نکالا کے بعد خان صاحب نے ایک نیا ائٹم متعارف کروا دیا ہے " اگر مجھے نکالا"۔ عوام کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر مجھے نکالا گیا تو میں زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا اور اپوزیشن کو چھپنے کی بھی جگہ نہیں ملے گی۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اس ملک کی کرپٹ اور موروثی سیاسی اشرافیہ کی طرح عمران خان کے نہ ہی کوئی کاروباری مفادات ہیں اور نہ انھوں نے ملکی خزانہ لوٹ کراور کرپشن کر کے اندرون اور بیرون ملک پیسہ اور جائیدادیں بنائی ہیں۔ انہیں سیاسی خاندانوں کی طرح اپنی اولاد اور رشتے داروں کو سیاست میں لانے کا کوئی لالچ نہیں ہے۔ حکومت میں خاص کر وزیراعظم کے منصب پر بیٹھ کر جہاں تمام ادارے ان کےماتحت ہیں اور ہر روز بیسیوں فائلیں اور معاملات ان کے سامنے آنے پر جن حقیقتوں اور رازوں کے وہ امین بن چکے ہیں کسی سازش کی صورت نکالے جانے پر قومی سلامتی کے معاملات کے علاوہ دیگر رازوں اور خفیہ معاملات کو عوام کے سامنے رکھنے میں وہ ایک لمحے کو بھی نہیں ہچکچائیں گے اور یہ صرف اپوزیشن نہیں طاقتور حلقوں کے لئے بھی بہت بڑا درد سر ہے۔
عمران خان کے اس سیشن کے بعد کراچی سے خیبر تک دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں اور ایک مخصوص طبقے کی چیخیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس سیشن میں گالیاں دینے والوں کے لئے " گھٹیا" کا لفظ استعمال کئے جانے پر میڈیا میں طوفان مچا ہوا ہے جیسا کہ چند دن قبل شہباز گل کی طرف سے نان سینس کہنے پر اٹھا تھا مگر حیرت انگیز طور پر سارے میڈیا اور سوشل میڈیا کے دانش وروں میں ناپاک جانور سے تشبیہ دئے جانے پر مکمل خاموشی چھائی رہی اور مذمت کا ایک لفظ ادا نہیں کیا گیا۔ یہاں صحافتی اخلاقیات کا جنازہ نکال کر آف دی ریکارڈ خبروں کو بھی چھاپ دیا جاتا ہے جس کی تازہ ترین مثال چوھدری سرور کا معاملہ ہے جب کہ صحافی اور سوشل میڈیا کے دانش ور بجائے نیوٹرل خبر دینے اور حقائق بیان کرنے کے اپنی ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر تجزئے دیتے نظر اتے ہیں۔
پاکستان میں ذہن سازی اور مخصوص بیانیہ پروموٹ کرنے کی بیسیوں مثالیں ہیں مثلا صحافی اور سوشل میڈیا دانش ور ایک طویل عرصے سے پراپیگینڈہ کر رہے ہیں کہ ڈالر پونے دو سو روپے پر جا چکا ہے مگر وہ کبھی یہ نہیں بتاتے کہ گذشتہ حکومت میں ڈالر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کر کے اربوں ڈالر مارکیٹ میں جھونکے گئے تھے جس کا اعتراف سابق وزیر خزانہ پنجاب عائشہ غوث پاشا نے بھی کیا تھا کہ ان کے دور میں واقعی ڈالر کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرکے رکھا گیا جس کے باعث ملک کی معیشت پر منفی اثرات پڑے اور پاکستان کی ایکسپورٹس میں کمی آئی، جب کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی مینج فلوٹ کا اعتراف کر چکے ہیں. ڈالر ریٹ فکس ہونے کی وجہ سے قیمتیں ایک جگہ رکی ہوئی تھیں اور یہ طے شدہ بات تھی کہ جب ڈالر کو آزاد مارکیٹ پر چھوڑا جائے گا تو اس کا ریٹ بڑھے گا اور اس کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آئے گا مگر اس پر بات نہیں کی جاتی۔
یہ صرف ایک ڈالر کا معاملہ نہیں میڈیا اور سوشل میڈیا عرصہ دراز سے ہر بات اور ہر معاملے کے منفی پہلو اجاگر کرنے میں پیش پیش ہے۔ یہاں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ مہنگائی بے انتہا ہوچکی اور اتنے فیصد تک پہنچ گئی مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ کرونا کی وجہ سے اور اس کے بعد سپلائی چین متاثر ہونے سے امریکہ سمیت پوری دنیا میں مہنگائی کے برسوں پرانے ریکارڈ ٹوٹے ہیں۔ یہاں گیس اور بجلی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے پر بدانتظامی اور نااہلی کا الزام تو لگایا جاتا ہے مگر اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرتا کہ پچھلی حکومت میں قطر سے مہنگی ترین ایل این جی کا معاہدہ کیا گیا اور ٹرمینلز بنانے کے معاہدے ڈالرز میں کئے گئے جو استعمال ہوں نہ ہوں مگر حکومت لاکھوں ڈالر انھیں دینے کی پابند ہے۔ جب کہ ماضی کی حکومتوں نے پرائیویٹ بجلی گھروں سے تاریخ کے مہنگے ترین معاہدے کئے ہیں اور بجائے انھیں سستے زرائع سے بجلی پیدا کرنے پر پابند کیا جاتا وہ تیل سے بجلی پیدا کرتے ہیں جس سے امپورٹ بل میں اضافے کے ساتھ مہنگی ترین بجلی حکومت کو خریدنی پڑتی ہے نیز کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں اربوں روپے حکومت کو ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔
یہاں ریلوے, پی آئی اے اور اسٹیل مل سمیت اداروں کے خسارے پر شور مچایا جاتا ہے مگر اس پر کوئی بات نہیں کرتا کہ ماضی کی سیاسی بھرتیوں, اقرباء پروری اور نااہلی نے ان اداروں کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ یہاں اس پر تو اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ پچھلی حکومت کے اخری سال شرح نمو پانچ فیصد سے زیادہ تھی مگر اس پر کوئی بات نہیں کرتا کہ تب کرنٹ اکائوئٹ خسارہ بیس ارب ڈالر تھا اور برآمدات تاریخ کی کم ترین سطح پر تھیں جب کہ پاکستان کو درامدی معیشت کی طرف دھکیل دیا گیا تھا.
یہاں پیٹرول مہنگا ہونے پر تو شور مچا دیا جاتا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ گذشتہ حکومت پیٹرول پر ٹیکس کی مد میں پچاس روپے سے زائد وصول کر رہی تھی جب کہ موجودہ حکومت نے کچھ عرصہ قبل پیٹرول پر ٹیکس زیرو کر دیا تھا اور پیٹرول مہنگا ہونے کی وجہ عالمی سطح پر اس کی قیمت میں اضافہ ہے. یہاں کاروں یا دوائیوں کے مہنگے ہونے پر تو شور مچایا جاتا ہے مگر کوئی اس پر بات نہیں کرتا کہ ماضی کی حکومتوں نے ان کمپنیوں سے کیا معاہدے کئے جن کی بنیاد پر کئی دہائیوں بعد بھی مقامی طور پر مینوفیکچرنگ اور مقامی سطح پر خام مال کی تیاری کے بجائے امپورٹ بل بڑھایا جاتا ہے۔
یہاں چینی کے بحران پر حکومتی ناکامی کا شور مچایا جاتا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ شوگر ملیں کن چند مخصوص سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں. بنی گالا کے ریگولرائز ہونے پر شور مچانے والے کبھی یہ نہیں بتاتے کہ ماضی کی حکومتوں نے اپنے محلوں کی تعمیر کے لئے قوانین میں ترمیم کر کے سرکاری زمینیں ہتھیائیں.
یہاں اس بات پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ائی ایم ایف سے قرض لیا جارہا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ ماضی میں بیسیوں دفعہ حکومتیں آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹا چکی ہیں اور وطن عزیز کو قرضوں کی دلدل میں اس حد تک دھکیل دیا گیا ہے کہ حکومتی آمدنی کا زیادہ تر حصہ قرض دینے پر خرچ ہورہا ہے. یہاں اس بات پر تو شور مچایا جاتا ہے کہ جوبائیڈن نے خان صاحب کو اج تک کال نہیں کی مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ ماضی کے حکمران امریکیوں کی ایک کال پر لیٹ جاتے تھے اور پہلی بار "ایبسلوٹلی ناٹ" کہ کر اس روایت کو بدلا گیا اور اپنا وزن اگلی سپر پاور چین اور روس کے پلڑے میں ڈالا گیا جس کا اعتراف امریکی سیاستدان کئی بار کرچکے ہیں کہ جوبائیڈن کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان کو چین اور روس کے بلاک میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اگر عمران خان روس سے گیس اور تیل حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقینا یہ پاکستان کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوگا۔
ریکارڈ ٹیکس کلیکشن، نئے ڈیمز، زرمبادلہ کے ذخائر 25 ارب ڈالر، فارن ریمیٹینس 30 ارب ڈالر، کئی فصلوں کی بمبر کراپس کاشت، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ اور ائی ٹی کے شعبے سمیت کئی سیکٹرز میں ریکارڈ ترقی کے باوجود کیا سب اچھا ہے؟ اس کا جواب یقینا نہ میں ہے، پنجاب اور خیبر پختونخواہ سمیت کابینہ تک میں نااہل لوگوں کی سلیکشن، وزراء کی کرپشن، اقرباء پروری، انتظامی مسائل، بے لگام مافیاز، احتساب کا عمل صفر اور اصلاحات سمیت درجنوں وعدے تھے جو حکومت پورا کرنے میں ناکام رہی ہے مگر اس سب کے باوجود خان صاحب کے بقول پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ اور خاص طور پر نوجوان جو اس ملک میں اکثریت میں ہیں، اور وہ آج بھی ان کے ساتھ ہیں۔
اس دعوے کی حقیقت تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا مگر میڈیا کو چاہئے کہ کوڑے کھا کر اور ایک طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی ہوئی آزادی کو بے لگام نہ ہونے دیں اور مروجہ صحافتی اخلاقیات اور معیارات کو ترجیح دے کر درست حقائق عوام کے سامنے رکھیں تاکہ عوام کا اعتماد مجروح نہ ہو۔