چھ سال قبل میں لندن سے ایک نئی صحافتی ذمہ داری کے لئے پاکستان واپس لوٹا۔ اس وقت سیاسی منظرنامہ تیزی سے پیچیدہ تر ہو رہا تھا۔ نواز شریف کے چاہنے والوں نے حال ہی میں ایک متنازع عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اپنا بادشاہ کھو دیا تھا اور اب وہ ان کے نامزد کردہ ایک پیادے کی قیادت میں اپنی انتخابی مدت پوری کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔
میرے عہدے کے باعث جلد ہی مجھے ملک کے کرتا دھرتاؤں تک رسائی مل گئی۔ ملکی سیاست ایک گھڑمس تھی۔ اسلام آباد ملک کے طول و عرض سے اکٹھے ہوئے ریٹائرڈ اور حاضر سروس سرکاری افسران سے بھرا ایک بیزار سا شہر ہے۔ اصل طاقت البتہ ملحقہ فوجی چھاؤنی والے شہر میں ہے۔ دن اکتا دینے والے ہوتے ہیں لیکن اگر میزبان اور ارد گرد کا ماحول اچھا ہو تو شامیں بہت دلچسپ ہو سکتی ہیں۔
ڈرائنگ روم کیوبا کے سگار اور امریکی سگریٹوں کے دھوئیں سے اٹے ہوتے ہیں۔ طرح طرح کے سکاٹش مشروبات ایسی معلومات سے لیس دلائل کو خوبصورت سے خوبصورت تر تراش رہے ہوتے ہیں جو عام حالات میں ریاستی راز سمجھے جاتے ہیں۔ ایک صحافی کے لئے اسلام آباد اور راولپنڈی میں ٹھیک جگہوں پر ایسے ٹھیک 'دوستوں' کا ہونا بہت ضروری ہے۔ میری خوش قسمتی تھی کہ کچھ ایسے افسران سے اس وقت دوستی ہوئی جب وہ یورپ میں مختلف مقامات پر تعینات تھے اور اب اسلام آباد اور راولپنڈی میں کلیدی عہدوں پر فائز تھے۔
دسمبر کی ایک سرد شام میں ایک ایسے دوست کے ساتھ بیٹھا ارل گرے پی رہا تھا جو اکثر وردی والوں کے ساتھ نظر آتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا اسے کچھ اندازہ تھا کہ اس بار نواز شریف کو اقتدار سے کیوں نکالا گیا تھا جب کہ انہوں نے راولپنڈی میں کسی کو تنگ بھی نہیں کیا تھا۔ میرے 'دوست' نے مجھ پر نظریں ٹکائیں، کچھ طویل لمحے توقف کے بعد گویا کسی آتش فشاں کو دبانے کی کوشش کر رہا ہو، بالآخر ایک چھوٹا سا مخفف اپنی زبان سے نکالا – CPEC۔ میں حیرت سے اس کی طرف اپنی سماعتوں میں پڑنے والے الفاظ کی تصدیق کی خواہشمند نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں فولاد سا اعتماد تھا۔
اسلام آباد میں بہت زیادہ کانفرنس ہال تو نہیں لیکن اس زمانے میں اس شہر کے دو ہی قابلِ ذکر ہوٹلوں کے کانفرنس ہالز میں جتنی بھی تقریبات سما سکتی تھیں ان میں واشنگٹن سے دوری بنانے اور بیجنگ کو گلے لگانے کی اہمیت کو ہی اجاگر کیا جا رہا تھا۔ صدر شی جن پنگ اور ان کے Belt and Road Initiative کو تصوراتی Xanadu کا راستہ بتایا جا رہا تھا۔ سامعین کو بتایا جا رہا تھا کہ سی پیک ہی پاکستان کی غربت سے نجات کی واحد امید ہے۔ بوڑھے ریٹائرڈ افسران جن کے پورے کریئر فل برائٹ کے وظیفوں سے عبارت تھے اور جو لوگوں کو اپنے بیرونِ ملک چوٹی کے تعلیمی اداروں میں رہنے اور پڑھنے کی کہانیاں سناتے تھکتے نہ تھے، حیرت میں گم ناظرین کو بتا رہے ہوتے کہ مشرق سے ابھرتا ہوا تندرست و توانا چین ہی پاکستان کی آخری امید ہے – ایک غریب ایٹمی ملک جسے اس کے مغربی ناخداؤں نے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جب یہ اپنے ایک غریب ساتھی کو اس کے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد تک نہیں کر سکتی؟
2018 کے انتخابات نے لیکن سب کچھ تبدیل کر دیا۔ سیاسی نوسکھیے جنہیں چند طاقت کے بھوکے اور خود پسند جرنیلوں نے اقتدار میں لا بٹھایا تھا سی پیک پر روکیں لگانے لگے۔ پہلے انہوں نے پروجیکٹس کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے اور پھر شفافیت اور صوبائی مفادات کے نام پر انہیں مکمل طور پر بند کر دیا۔ سی پیک پر کام رک گیا۔ ریاست کے کرتا دھرتا لیکن لوگوں سے جھوٹ بولتے رہے کہ کچھ نا کچھ کام اب بھی جاری ہے۔ بہت سے چینی شہری جو اپنے خاندانوں سمیت پاکستان منتقل ہو گئے تھے واپس اپنی کمپنیوں کے صدر دفتروں کو چلے گئے۔
2022 کے وسط تک پی ٹی آئی کی قیادت اور تنظیم سیاسی، معاشی، معاشرتی اور انتظامی، ہر لحاظ سے تھک چکی تھی۔ سیاسی مخالفین کے خلاف غیر ضروری زہر اگلنے میں تین سال سے زائد عرصہ ضائع ہو چکا تھا۔ انفراسٹرکچر کی ترقی، روزگار کے مواقع، عوام کی معاشی بہتری اور ہم آہنگی وغیرہ کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے تھے۔ خیالی ترقی پر 'قوم کو اعتماد میں لینے' کے نام پر وزیر مشیر صبح شام پریس کانفرنسز کرتے۔ اور پھر اسلام آباد کے تھنک ٹینک سرکٹ میں ایک نئی مستعار لی گئی اصطلاح geoeconomics مقبول ہونے لگی۔
اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ اس نئے 'geoeconomic vision' کے ساتھ سامنے آئے جس میں پاکستان کو تزویراتی اور سیاسی مفادات کو تیاگ کر اپنے جغرافیے کو معاشی ترقی کے حصول کے لئے استعمال کرنا تھا۔ لیکن اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات کوئی ہو نہیں سکتی تھی کیونکہ حکومتی راہداریوں میں امریکیوں کی خوشنودی کی خاطر سی پیک کو بند کرنے کا ذمہ دار انہیں ہی ٹھہرایا جا رہا تھا۔ اب علاقائی معاشی تعاون کی باتیں کرنے کا کیا مقصد تھا جب وہ واحد پروجیکٹ جو اس مقصد کو پورا کر سکتا تھا، اسے پکڑ کر بند کیا جا چکا تھا؟ اب صورتحال یہ تھی کہ سی پیک بند ہو چکا تھا اور کمرے میں موجود دوسرے ہاتھی کا نام لینے کی کسی میں سفارتی جرات تھی نہیں لہٰذا حکمرانوں کے پاس عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
تاہم، جو کچھ جنرل باجوہ پاکستان میں نہیں کہہ سکتے تھے وہ انہوں نے 2019 میں لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹوٹ فار سٹرٹیجک سٹڈیز میں ایک 'نجی، آف دی ریکارڈ، خصوصی نشست' میں سوال جواب کے دوران ایک امکان کے طور پر تسلیم کر لیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ: "پاکستان دائمی امن اور استحکام کے حصول کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یہ بین الاقوامی سطح پر معنی خیز شراکت داری، مدد اور علاقائی چیلنجز سے جھوجھنے کی قوتِ ارادی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔" اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: "بہتر سکیورٹی غیر ملکی سرمایہ کاری کو پاکستان لا سکتی ہے جو کہ علاقائی ربط سازی میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ تاہم، جنوبی ایشیا میں دائمی امن و استحکام کے مستقبل کا دارومدار عرصہ دراز سے چلے آ رہے علاقائی تنازعات کو حل کرنے کی صلاحیت پر ہے۔"
میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا پاکستان ایک ایسے مستقبل کی منصوبہ بندی کا آغاز کر سکتا ہے جس میں علاقائی ربط سازی ایک حقیقت بن سکے – ایک حقیقت جس میں پاکستان ناصرف چین کو گوادر سے ملانے کے لئے ایک راہداری فراہم کر رہا ہو بلکہ بھارت کو ایران اور مشرقِ وسطیٰ اور اسی کو براستہ افغانستان وسطی ایشیا سے ملانے والی دو مزید راہداریاں بھی فراہم کر رہا ہو؟ بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی بعد ازاں اس منصوبے کا حصہ بن کر اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ کچھ کمزور یورپی ممالک کی طرح پاکستان بھی ٹول منی کے ذریعے اربوں ڈالر کما سکتا تھا۔ جنرل باجوہ نے اصولی طور پر تو اتفاق کیا لیکن مکمل طور پر اس خیال پر اپنی حمایت کی مہر ثبت نہیں کی۔
پاکستان علاقے کے دیگر ممالک کو سی پیک میں جو ابھی تک قابلِ استعمال حالت میں نہیں شریک بننے کی دعوتیں دے رہا ہے۔ لیکن یہ بھارت کی امریکہ سے موجودہ قربتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت-پاکستان-ایران تجارتی راہداری کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔ امریکہ پاکستان کو ایران کے ساتھ آزادانہ تجارت کی اجازت نہیں دیتا لیکن یہ بھارت کو ایران سے تجارت کرنے سے روکتا بھی نہیں۔ علاقائی ربط سازی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں چین کی جانب سے حال ہی میں تہران اور ریاض کے درمیان کروائی گئی دوستی کا بھی فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔
چاروں صوبوں سے گزرتی یہ سڑکیں زرِ مبادلہ کی شدید کمی کا شکار پاکستان کے لئے پیسہ کمانے کی مشینیں ثابت ہو سکتی ہیں۔ ایک بار بھارت، پاکستان، ایران، افغانستان اور جنوبی ایشیا سے باہر موجود ممالک کے درمیان ٹرک چلنا شروع ہو گئے تو کشمیر جیسے معاملات کا حل بھی خودبخود نکل آئے گا۔
عامر غوری کا یہ مضمون دی نیوز میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔