چھ اکتوبر کے بعد سے ملکی سیاست میں ہلچل برپا ہے۔ پاکستان کے تمام سیاسی، دفاعی اور معاشی تجزیہ کار صرف ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت ڈیلیور نہیں کر رہی، اس کا جانا طے ہے۔ ہم آج کل جس چینل کو بھی سنتے ہیں ہر جگہ ایک ہی شور ہے کہ جی کا جانا ٹھہر گیا، صبح گیا یا شام گیا۔
سب کی سن چکے، سب کا کہا مان چکے، سب کی کہانی ختم ہو رہی ہے۔ ویسے تو نائن زیرو پاکستان کی تاریخ میں ایک دھندلا عدد ہے لیکن افسوس آج بھی ہماری سیاست نائن زیرو کے گرد ہی گھوم رہی ہے، یعنی نوے دن۔
کچھ تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ 90 دن معشیت کے لئے اہم ہیں تو کچھ کہہ رہے ہیں کہ ایک تقرری کا نوٹیفکیشن ہونا ہے اس کے لئے یہ دن بہت ہی اہم ہیں۔
اگر ملک میں جمہوریت کا پہیہ چلتا رہے تو ہی ہماری بقا ہے۔ ایسا سوچنا ہر پاکستانی کا فطری عمل ہے۔ جنرل فیض حمید جو کہ سنیارٹی کی لسٹ پر سب سے نیچے یعنی نمبر 4 پر ہیں، ان کو اوپر لانے کی سوچ حکمران جماعت میں اس وقت انتہا کو ہے۔
عمران خان کا بس نہیں چل رہا، وگرنہ آج ہی نوٹیفکیشن کر دیا جائے کہ جنرل فیض حمید اگلے آرمی چیف ہیں۔ عمران خان کو پورا حق ہے کہ اپنے وزیراعظم کا حق استعمال کریں لیکن ہمیں امید ہے تمام مراحل باآسانی سے گزر جائیں گے۔
عمران خان اپوزیشن لیڈر اور ملکی سیاست سے فوج کا کردار ختم ہو جائے تو آرمی چیف کوئی بھی ہو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب لوگ اپنا اپنا کام کریں۔ ہمیں امید ہے پاکستان کی فوج اب اپنی ماضی کی غلطیوں سے کافی کچھ سیکھ چکی ہے۔
جنرل فیض حمید کے کور کمانڈر ہوتے ہوئے پشاور میں میئر جے یو آئی ایف کا منتخب ہوگیا اور اسی طرح آرمی چیف ہوتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف ہوں تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ جمہوریت کے تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں حرکت کریں اس سے اچھی بات پاکستان کے لیئے کوئی نہیں ہے۔
ہمارے تجزیہ کاروں کو تجزیہ کرتے ہفتے ایک بات کا خیال نہیں رہتا کہ وزیراعظم عمران خان سے زیادہ اپوزیشن لیڈر عمران خان ہماری مقتدرہ کے لئے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ان کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ عمران خان کو نکالنے کے لئے کوئی بھی ایسا آئینی اقدام جو اپوزیشن اور مقتدرہ مل کر اٹھائیں گے وہ زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔
نواز شریف کا بیانیہ کہ مجھے کیوں نکالا ہلکا پڑ جائے گا اور یہ بات پوری کی پوری مقتدرہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عمران خان یہ نہیں پوچھے گا کہ کیوں نکالا بلکہ وہ بتائے گا کیسے نکالا؟
میری پھر سے تجزیہ کاروں سے درخواست ہے کہ بات سادہ ہے اس لئے ایسی منطق نہ دیں کہ یہ ہوگا تو ایسا ہوگا، فلاں کی مدت پوری ہوگی تو یہ ہو جائے اور فلاں آجائے گا۔