اے پی ڈی ایم بنے یا پی ڈی ایم، مقتدرہ وہی ہے جو تمام سیاسی فیصلے کرتی ہے

اے پی ڈی ایم بنے یا پی ڈی ایم، مقتدرہ وہی ہے جو تمام سیاسی فیصلے کرتی ہے
2002 سے 2008کے سیاسی حالات اور آج کے حالات میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے اس وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدلیہ بحالی تحریک اور امریکہ کی اقغانستان میں موجودگی کی وجہ سے کئے گئے تعاون کے باعث پرویز مشرف انتہائی غیر مقبول ہورہے تھے، مشرف کی اس بڑھتی غیرمقبولیت کی وجہ امریکہ کو ایک ایسے سیٹ اپ کی تلاش تھی جس کی پیکنگ تو اینٹی امریکہ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو لیکن اندر سے وہی پرانی پراڈکٹ برآمد ہو مطلب یہ کہ سیٹ اپ کی تبدیلی کے باوجود افغانستان اور پاکستان میں امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے امریکہ کی طرف سے مشرف اور مقتدرہ کو بے نظیر بھٹو سے معاملات طے کرنے پر مجبور کیا گیا یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بے نظیر بھٹو سے معاملات طے کر لئے گئے تھے تو پھر انہیں شہید کیوں اور کس نے کروایا؟  اس سوال کا تجزیہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اس کے کئی پہلو تاحال حل طلب ہیں اس لئے اس پر لب کشائی پھر سہی۔

بے نظیر بھٹو سے معاملات طے ہونے کے بعد اب مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ بے نظیر بھٹو نے انتخابات سے پہلے ہی وطن واپس آنے کا فیصلہ کرلیا لگتا یوں ہے کہ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کی وجہ سے مقتدرہ اور بے نظیر بھٹو کے معاملات خراب ہونا شروع ہوئے۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ مقتدرہ مشرف اور ق لیگ تینوں ہی عوام کا اعتماد اور مقبولیت کھو چکے تھے ان حالات میں بے نظیر بھٹو کا پاکستان میں ہونا پیپلزپارٹی کی انتخابات میں بھاری اکٹریت سے جیت کی نوید سنا رہا تھا، وقت بہت کم تھا اور مقابلہ بہت سخت تھا۔ مقتدرہ کے پاس بے نظیر بھٹو کو بھاری اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کا واحد پرانا فارمولا ہی بچا تھا اور وہ فارمولا نواز شریف کی واپسی تھا چنانچہ نوازشریف کو وطن واپسی کی اجازت مل گئی۔

نواز شریف کو وطن واپسی کی اجازت تو مل گئی لیکن نواز شریف کو ایک لمحے کے لئے بھی قبول نہیں کیا گیا وہ انتخابات لڑنے کے لئے نااہل قرار پائے تاہم وہ پنجاب حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مقتدرہ کا یہ حیلہ بھی صرف بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اضطراب کو کم کرنے لئے تھا جیسے ہی حالات کنٹرول میں آئے ن لیگ کی پنجاب حکومت کو ڈوگر کورٹ کے ذریعے ختم کردیا گیا اور نواز شہباز نااہل قرار پائے۔

پنجاب میں گورنر راج لگانے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن نواز شریف نے وکلا کے ساتھ مل کر لانگ مارچ کیا اور افتخار چوہدری نے ڈوگر کورٹ کے فیصلے کو ’ریورس‘ کردیا اور ن لیگ حکومت بحال ہوگئی جس کے نتیجے میں نواز شریف بھی سیاست کے لئے اہل قرار پائے۔ یہ وقت نواز شریف کی مقبولیت کا عروج تھا اور دوسری طرف بجلی کا بحران۔ مہنگائی کی موجودگی میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی کا نہ ہونا آئے روز کے کرپشن اسکینڈلز نواز شریف کی مقبولیت کو چار چاند لگا رہے تھے۔

نواز شریف کے معاملات تب خراب ہونا شروع ہوئے جب افتخار چوہدری نے بحالی کے بعد اپنی توپوں کا رخ نواز شریف کی توقعات کے برخلاف بجائے مقتدرہ اور مشرف کی باقیات کی طرف موڑنے کے پیپلزپارٹی کی حکومت پر گولہ باری شروع کردی جس کی وجہ سے نواز شریف کے لئے یہ مشکل ہوگیا کہ انہوں نے جس عدلیہ کو بحال کروایا اب اسی عدلیہ کے خلاف کس طرح تنقید کریں ۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی حکومت کی بری کارکردگی نواز شریف کو مک مکا اور فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دلوا رہی تھی نواز شریف صاحب اب بری طرح پھنس چکے تھے۔ 2013 کا الیکشن ابھی دور تھا نواز شریف حکومت گرانا نہیں چاہتے تھے کیونکہ اگر وہ حکومت گراتے تو کل پیپلزپارٹی ان کی حکومت گرادیتی اور یوں نوے کی دہائی کی طرح وقت کا ضیاع ہوتا چنانچہ نواز شریف کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف کی پالیسی کے تحت ٹائم ٹپاؤ والی پالیسی پر عمل پیرا رہے ۔ اس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا جسے مقتدرہ نے عمران خان کے ذریعے پر کیا اور نواز شریف کی ممکنہ دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے خواب کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ۔

کیونکہ پیپلزپارٹی اتنی غیرمقبول ہوچکی تھی کہ اگر عمران خان کو لانچ نہ کیا جاتا تو نواز شریف تاریخ کا سب سے بڑا مینڈیٹ لے کر وزیراعظم بنتے لیکن مقتدرہ کو تو سادہ اکثریت والا نواز شریف بھی قبول نہیں تھا اس لئے عمران خان کی اہمیت بڑھ گئی۔ عمران خان اور میڈیا کی مدد سے مقتدرہ نے ایسا شور برپا کیا کہ جس سے ایسا الوژن پیدا کردیا گیا کہ جس سے تحریک انصاف مقابلے کی پوزیشن میں آگئی اور یوں پیپلزپارٹی کی غیر مقبولیت کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا تھا وہ پر ہوگیا اور نواز شریف کے بھی پر کاٹ دیئے گئے۔

اب آتے ہیں 2008 سے موجودہ حالات کی مماثلت کی طرف 2008 میں جس جگہ مشرف اور شوکت عزیز تھے اس جگہ آج موجودہ چیف صاحب اور عمران خان کو رکھا جائے، اے پی ڈی ایم کی جگہ پی ڈی ایم نے لے لی ،افتخار چوہدری کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسی آگئے، نواز شریف اے پی ڈی ایم میں تھے اور آج پی ڈی ایم میں ہیں ، پیپلزپارٹی اس وقت بھی اسٹیٹس کو کی حامی اور مفاہمت چاہتی تھی آج بھی اسی جگہ موجود ہے، اس وقت بھی امریکہ کو اس وقت کی حکومت اور مقتدرہ کی غیرمقبولیت کی وجہ سے رجیم چینج کرناتھی اور آج بھی جوبائیڈن کی پاکستانی سویلین حکومت سے بے رخی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آج بھی امریکہ رجیم چینج چاہتا ہے۔ لیکن نئی حکومت سے اپنے مفادات کا تحفظ بھی چاہتا ہے جس کے لئے پیپلزپارٹی سے بہتر اس کے لئے کوئی اور چوائس نہیں اور اس بات کو پیپلزپارٹی اور اے این پی بخوبی سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں نے پی ڈی ایم سے اپنی راہیں جدا کرلی ہیں۔ اس طرح ایک بار پھر 2008 کی طرح سیاسی تقسیم عمل میں آگئی ہے ایک طرف پیپلزپارٹی جو 2008  میں بھی اسٹیٹس کو کی موجودگی میں انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی سیاست کی حامی تھی اور دوسری طرف نواز شریف جو کہ اے پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل تھے اور انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہتے تھے اور آج کے حالات میں بھی نوازشریف پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل ہیں اور پارلیمان سے باہر کی سیاست کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف امریکہ اور مقتدرہ کی مخالفت مول لے کر اسٹیٹس کو کو توڑتے ہوئے کوئی انقلابی حل نکالیں گے ؟ کیا نواز شریف کو ایک بار پھر لانگ مارچ کرکے جسٹس قاضی فائز عیسی کو چیف جسٹس بنوانا پڑے گا؟   یا شہباز شریف پیپلزپارٹی اور مقتدرہ کی بات مان کر پنجاب میں ن لیگ اور مرکز میں پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت بنوانے کا فارمولا قبول کر کے پرانی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا؟  اگر نواز شریف پرانی تنخواہ پر کام کرتے ہیں تو انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انہیں ایک لمحے کے لئے بھی قبول نہیں کیا جائےگا اور وقت کا دھارا بدلتے ہی آپ کو پھر سے سسٹم سے آؤٹ کردیا جائے گا اور پھر 2023 سے 2028 تک آپ کو فرینڈلی اپوزیشن، کرپٹ حکمران 35 سالہ اقتدار میں کچھ نہ کرسکنے جیسے بے شمار طعنے دلوا کر شاہدآفریدی کو بھی میدان میں اتارا جاسکتا ہے جس کے ذریعے آپ کے پر جلادیئے جائیں گے اور 2013 کی طرح پھر آپ محکوم و مجبور و محسور وزیراعظم بنیں گے جو نہ ادھر کا رہے گا نہ ادھر کا۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔