حزبِ اختلاف کے مقتدرہ سے مذاکرات، اور اعصاب کی جنگ

حزبِ اختلاف کے مقتدرہ سے مذاکرات، اور اعصاب کی جنگ
اپوزیشن کا ایجنڈا حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانا یا حکومت کو گھر بھیجنا نہیں ہے بلکہ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی اور ناکامی کو مکمل طور پر ایکسپوز کرنا ہے، عوام کو حکومت کے قول و فعل میں بڑے تضاد سے مسلسل آگاہ رکھنا ہے، اس سارے ایجنڈے کی کامیابی کے لئے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ حکومت کی کارکردگی کا تجزیہ اور تقابل عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کی کنٹینرز پر کی گئی تقریروں سے کیا جائے، یا اُن بیانات، تقاریر سے، اُن ٹویٹس سے کیا جائے جو وہ اپوزیشن کے دنوں میں کرتے رہے ہیں۔ اس سیاسی موڑ پر حکومت کے قول و فعل میں تضاد کو سامنے لانا ہی بہتر حکمت عملی ہے۔

اب جب نیازی حکومت نے پٹرول بم عوام پر گرایا ہے، تو سب سے بہتر حکمت عملی یہی رہی ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے ارسطو اسد عمر کے بیانات اور ٹویٹس شیئر کر کے عوام کو حکمرانوں کے تضادات اور کردار و سیاست کا کھوکھلا پن دوبارہ یاد کروایا جائے۔ حکومت نے پٹرول کی قیمت میں جو یک مشت 25 روپے ریکارڈ اضافہ کیا ہے، اس کے بعد شہری عمران خان اور اسد عمر کو ان کے وہ بیانات اور ٹویٹس دکھا رہے ہیں جن میں وہ ماضی میں پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کی شدید مخالفت کیا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ کیسے پٹرولیم کی قیمت پچاس، پچپن روپے فی لٹر ہونی چاہیے۔

اسی تناظر میں پیپلز پارٹی قومی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرنے جا رہی ہے۔ اس سے قبل تمام صوبوں میں پارٹی آل پارٹیز کانفرنسز کا انعقاد کر چکی ہے، جس میں ماسوائے تحریک انصاف کے تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی تھی۔ اب اسی تسلسل میں قومی سطح پر اے پی سی میں کرونا بحران میں حکومت کی بدترین لاپروائی، غیرذمہ داری، معشیت میں بدترین کارکردگی، ہر سطح اور ہر فرنٹ پر ناکامی، کے ساتھ ساتھ آئین کے خلاف بالخصوص اٹھارہویں ترمیم، اور این ایف سی ایوارڈ پر حکومتی حملوں کو روکنے کے لئے تمام جماعتیں تبادلہ خیال اور مشاورت کریں گی اور آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دے کر آگے کا راستہ متعین کریں گی۔



جیسے جیسے حکومتی ناکامیاں اور فریب عوام کے سامنے آ رہے ہیں، ویسے ویسے حکومت کے لئے ہوا گرم ہوتی جا رہی ہے، مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں، اتحادی ساتھ چھوڑ کر جا رہے ہیں، عشائیوں، ظہرانوں میں شرکت نہیں کر رہے ہیں، جو لوگ تحریک انصاف کو اقتدار میں آتا دیکھ کر جہاز پر چڑھے تھے اب وہ ڈوبتے ٹائیٹنک کو دیکھ کر آہستہ آہستہ اس سے اترنے کی تیاریاں پکڑ رہے ہیں۔ ایک تو ہوم ورک نہیں تھا، نااہلی اور ناکامی بھی انتہا پر ہے۔ اوپر سے حکومتی جماعت میں گروپ بندی عروج پر پہنچ گئی ہے۔

اب جب کہ کچھ حلقوں میں نئے سیٹ اپ کے بارے میں غور و فکر کی خبریں ہیں، کیونکہ حکومت کا آدھا وقت تو گزر چکا ہے، اور آگے بھی کوئی بہتری کی صورت نہیں، تو لازم ہوگا کہ ابھی سے آئندہ کی حکمت عملی بھی طے کر لی جائے۔

مگر اس دفعہ مختلف یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کو فوری طور پر گھر بھیجنا نہیں چاہتی، بلکہ وہ کچھ بنیادی نوعیت کے قانونی، آئینی اور سیاسی معاملات طے کرنا چاہتی ہے۔ اور یہ معاملات وہ طے کرنا چاہتی ہے مقتدرہ حلقوں سے۔ اگر یہ تھیوری مان لی جائے کہ سلیکٹرز کو بھی اب اپنے فیصلوں پر پیشمانی ہو رہی ہے اور وہاں یہ سوچ ہے کہ فیصلوں میں غلطیاں ہوئی ہیں تو پھر غلطی کی اصلاح کے لئے نمائندہ سیاسی جماعتوں سے بات کرنا ہوگی، اور اس بار سیاسی جماعتوں کی بھی کچھ سخت شرائط ہوں گی۔ اب وہ محض مہرہ بننے کے لئے بظاہر تیار نہیں۔ ابھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں خواجہ سعد رفیق اور عبدالقادر پٹیل نے بھی اس صورت حال کی طرف نشاندہی کی ہے۔

یہ اعصاب کا کھیل ہے، اگر حکومت کی مسلسل ناکامی اور نالائقی سے کچھ عرصے بعد مقتدر حلقے اعصاب شکن ہوتے ہیں، اور اقتدار کی بچھی اس بساط میں ان کو اپوزیشن جماعتوں کی ضرورت پڑتی ہے تو قومی نمائندہ ان جماعتوں کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہو سکتا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق آئندہ حکومتوں کو امور مملکت چلانے کے لئے ان کو اختیارات اور آزادیاں دی جائیں، اس کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقے عمران خان کے ذریعے ’نیا پاکستان‘ نامی پراجیکٹ کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیں، جس کے لئے لازمی ہوگا کہ عمران خان نہ صرف استعفا دیں بلکہ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگیں کہ جو وہ کہتے رہے، جو وہ کرتے رہے تھے، وہ سب دھوکہ، فراڈ اور گھناؤنا جھوٹ تھا، جس سے قوم گمراہ ہوئی اور ایک انتہا پسند سیاسی قوم پیدا ہوئی۔

اب جب کہ حکومت کمزور بھی ہو رہی ہے، اس کے قائد عمران نیازی بھی بری طرح ایکسپوز ہو چکے ہیں، اور ایک خاص حد تک اب تک کی فیصلہ ساز قوتیں اس ناکامی کا بوجھ اٹھا سکیں گی، جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، ناکامیوں کی فہرست بھی طویل ہوتی جائے گی۔ یہ ناکام صورتیں مقتدرہ قوتوں کو مجبور کریں گی کہ وہ عوامی جڑیں رکھنے والی جماعتوں سے رابطہ کریں۔ اگر یہ ہوا تو اس بار سیاسی جماعتیں آسانی سے شراکت اقتدار کے لئے تیار ہوتی نظر نہیں آئیں گی۔ یہ وہ حالات ہو سکتے ہیں جب عمران خان نہ صرف استعفا دیں بلکہ قوم سے معافی مانگ کر سیاست کو خیرباد کہتے ہوئے اپنے بچوں کے پاس ہمیشہ کے لئے لندن چلے جائیں۔