پنجاب میں وزارتوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان شدید اختلاف پیدا ہوگیا

پنجاب میں وزارتوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان شدید اختلاف پیدا ہوگیا
منصور علی خان نے کہا ہے کہ صوبہ پنجاب میں وزارتوں کے معاملے پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ گذشتہ رات گورنر ہائوس میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔

اپنے وی لاگ میں منصور علی خان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما گذشتہ روز گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے پہنچے تھے لیکن ان کو اعلیٰ قیادت کی جانب سے ہدایت بھیجی گئی کہ وہ فوری طور پر وہاں سے نکلیں۔ آپ اس تقریب میں شرکت نہیں کرینگے۔

انہوں نے بتایا کہ ہدایت ملنے کے فوری بعد پیپلز پارٹی کا وفد تقریب سے اٹھا اور ریگل چوک میں جا کر دہی بھلے کھانا شروع کر دیئے۔ اس ہدایت کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وفد کو ایک اور فون کال کرکے ہدایات دی گئی کہ اب آپ تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے جا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا وفد ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے جیسے ہی گورنر ہائوس پہنچا تو ان کو ایک تیسری کال آئی جس میں دوبارہ شرکت سے منع کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لڑائی کی وجہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن ہمارے ساتھ کی گئی کمٹمنٹ پر یوٹرن لے رہی ہے۔ ہمیں جن وزارتوں کو وعدہ کیا گیا تھا اس کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ پورا ڈی سیٹ ہو چکا ہے۔ اس لئے ان کیساتھ کئے گئے وعدے اب پورے نہیں کئے جا سکتے، اس لئے ان کو دی جانے والی مراعات اب ہمیں دی جائیں۔



منصور علی خان کا کہنا تھا کہ تاہم مسلم لیگ ن کا اس پر موقف یہ ہے کہ 17 جولائی کو ڈی سیٹ ہونے والے تمام اراکین کی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اس وقت جہانگیر ترین گروپ کے کئی لوگ واپس اسمبلی میں آئیں گے۔ ان میں سے تقریباً سب نے ہی ن لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینا ہے۔ اس لئے ان کی واپسی پر وعدے پورے کئے جائیں گے۔ اس لئے مکمل کابینہ کی تشکیل نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب پیپلز پارٹی قیادت کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں ہمیں جو وزارتیں دی جا رہی ہیں، وہ غیر اہم ہیں۔ ہم ان کو قبول نہیں کر سکتے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پی پی پی اور ن لیگ کی قیادت کے درمیان گذشتہ رات بڑا جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادتوں نے ایک دوسرے کیساتھ رابطے شروع کئے۔ رات ساڑھے گیارہ بجے ن لیگ نے پیپلز پارٹی کو مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ آپ فی الحال اپنے دو بندے تو بھیجیں جن کو وزارتیں دی جا سکیں۔

اس کے بعد پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنے سینئر رہنما مرتضیٰ اور علی حیدر گیلانی کو وفد کے ہمراہ وزارتوں کو حلف اٹھانے کیلئے بھیجا گیا تو انہوں نے ن لیگ والوں کو کھری کھری سنا دیں۔ جب حلف لینے کی باری آئی اور گورنر ہائوس میں صوبائی وزرا کے نام پڑھے گئے تو اس میں علی حیدر گیلانی شامل ہی نہیں تھے۔ اس پر پی پی پی والے پھر سیخ پا ہوئے تو فوری طور پر ان کا نام شامل کرکے ان سے حلف لیا گیا۔