Get Alerts

ہئیت مقتدرہ 'پروجیکٹ 1985' کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے

ہئیت مقتدرہ 'پروجیکٹ 1985' کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے
جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء زوروں پر پہنچ چکا تھا۔ سماج میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف نفرت عروج پر تھی مگر عوامی مزاحمت بہت حد تک کمزور ہو گئی تھی۔ اگرچہ اس وقت کے مقبول ترین سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی مگر عوام کے دلوں میں وہ ابھی بھی زندہ تھا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اساطیری کردار بن چکا تھا جو بعد ازاں اپنی موت کے 30 برس بعد تک بھی قومی سیاسی منظرنامے پر چھایا رہا۔ الیکشن اسی کے نام پر لڑے جاتے رہے۔ ایک وہ تھے جو اس کے نام سے بھی نالاں تھے اور ایک وہ تھے جو بھٹو ازم کے پیروکار تھے۔

2018 کے بعد یہ صورت حال بدل گئی اور پھر سیاسی منظرنامہ کسی اور کے نام لگ گیا۔ اس کا تذکرہ آخر میں کروں گا، پہلے پروجیکٹ 1985 پر بات کر لیں۔ جیسا کہ سطور بالا میں لکھا گیا کہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت عروج پر تھی، پنجاب میں مزاحمت ختم اور سندھ میں کمزور ہو چکی تھی۔ تب عالمی دباؤ کے پیش نظر جنرل ضیاء الحق نے ملک بھر میں عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے خلاف بائیں بازو کے دانشور اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ روشن خیال حلقوں اور روشن خیال سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ روشن خیال صحافیوں، وکلاء، شاعروں اور ادیبوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

اسی دوران اس وقت کی ہئیت مقتدرہ نے پروجیکٹ 1985 لانچ کیا جس میں ہئیت مقتدرہ کے وفادار سیاست دانوں، صحافیوں اور دانشوروں کی ایک کھیپ تیار کی گئی۔ دائیں بازو کے سیاست دان سیاسی میدان میں پیپلز پارٹی اور صحافی اور دانشور سماجی ادبی اور صحافتی حلقوں میں لبرل اور روشن خیال طبقے کا مقابلہ کرتے تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ وقت گزرتا گیا، پروجیکٹ 1985 کے تحت لانچ کیے گئے سیاست دانوں جن میں پنجاب سے شریف برادران، سندھ سے پیر پگاڑا، خیبر پختونخوا سے مذہبی جماعت اسلامی جمعیت علمائے اسلام نے ہئیت مقتدرہ کی سیاسی میدان میں خوب معاونت کی۔ جب ہئیت مقتدرہ کو پیپلز پارٹی کے خلاف ان کی ضرورت پڑی، یہ لوگ اکٹھے ہوئے اور اپنی خدمات پیش کیں۔

جنرل پرویز مشرف کے بعد بظاہر ایسا لگا کہ شریف برادران ان کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں مگر یہ سب دکھاوا تھا۔ دونوں بھائیوں نے 'گڈ کوپ بیڈ کوپ' کا کھیل جاری رکھا۔ بڑا بھائی ہئیت مقتدرہ کے خلاف بیان بازی کرتا اور چھوٹا جنرل اشفاق پرویز کیانی سے نصف شب کو کی گئی درجن بھر ملاقاتوں کے بعد 2013 میں وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت بنوانے میں کامیاب رہا۔ 2018 میں بھی یہ کھیل جاری رہا۔ بظاہر ہئیت مقتدرہ کی ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ نظر آئیں مگر بعد ازاں مبینہ طور پہ 'آپریشن رجیم چینج' کے بعد یہ پروجیکٹ 1985 پھر اقتدار میں آ گیا۔ لیکن اس بار پیپلز پارٹی جس کے خلاف یہ پروجیکٹ لانچ ہوا تھا وہ بھی کاسہ اقتدار اٹھا کر اپنے بدترین سیاسی مخالفین کے ساتھ کھڑی ہو گئی کیونکہ مقصد اپنے اوپر سے کرپشن کے مقدمات ختم کرانا تھا۔

اس مرتبہ ہئیت مقتدرہ سے بھول ہو گئی کہ جس عمران خان کو وہ کٹھ پتلی اور عوام میں غیر مقبول سمجھتے تھے وہ ٹکر کا آدمی اور لوہے کا چنا ثابت ہوا۔ اس کی سیاسی جماعت کے کارکن جنہیں وہ 'برگر کلاس' سمجھتے تھے وہ بھی ٹکر کے لوگ ثابت ہوئے۔ اس کے علاوہ عمران خان کے ہمدرد صحافیوں اور دانشوروں نے بھی سوشل میڈیا کے اس دور میں ہئیت مقتدرہ کو ناکوں چنے چبوا دیے۔

پاکستان تحریک انصاف آج پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ وہ جو 1985 سے پنجاب میں تخت نشین تھے، آج الیکشن سے یوں بھاگ رہے ہیں جیسے کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ حکمران اتحاد عمران خان کے سامنے بھیگی بلی بنا کھڑا ہے۔ کیا پنجاب، کیا خیبر پختونخوا، ہر جگہ صرف اور صرف کپتان کا ڈنکا بج رہا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات کے کیس کی سماعت چل رہی ہے۔ پروجیکٹ 1985 کے تحت لانچ کیے گئے سیاست دان اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں۔ مقام ماتم یہ ہے جن کے خلاف پروجیکٹ 1985 لانچ کیا گیا تھا وہ پیپلز پارٹی، لبرل طبقہ، روشن خیال دانشور پروجیکٹ 1985 کے لانچ کرنے والوں کے کاسہ لیس بنے ہوئے ہیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔