سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کر دیا

جسٹس سردار طارق مسعود نے اعتراضات پر بینچ سے الگ ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وکلا جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ پڑھ لیں۔جس کے مطابق کیس سننے سے انکار کا فیصلہ جج کی صوابدید ہے۔انہوں معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو بینچ سے الگ نہیں کرتے۔

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کر دیا

انٹرا کورٹ اپیلوں کی ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کی اپیل منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دے دی تاہم فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہوگا۔

جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بینچ کا حصہ ہیں۔ 

جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ہم اس معاملے پر فیصلہ جاری کریں گے جوکہ تھوڑی دیر میں سنایا جائے گا۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا پر سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بینچ نے ابتدائی سماعت کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا ہے۔عدالت نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا 23 اکتوبر کا فیصلہ معطل کردیا جو کہ 5-1  کی اکثریت سے کچھ دیر پہلے محفوظ کیا گیا تھا۔جسٹس مسرت ہلالی نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا۔

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت شروع ہوئی تو جسٹس سردار طارق مسعود نے اعتراضات پر بینچ سے الگ ہونے سے انکار کیا۔

فیصلہ کے مطابق سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل جاری رہے گا۔لیکن فوجی عدالتیں سپریم کورٹ ختمی فیصلے تک سویلین ٹرائل کا فیصلہ جاری نہیں کر سکیں گی۔

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل لارجر بینچ نے کی۔

عدالتی استفسار پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کا موقف تھا کہ آرمی ایکٹ  کی شقیں کس آئین کی شق کے تحت غیر آئینی قرار دی گئی ہیں عدالت عظمی کا فیصلہ اس بارے میں خاموش ہے۔ ایف بی علی کیس میں فوجی ایکٹ کی شقوں کو برقرار رکھا گیا۔ سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل کورٹ نے بھی 21 ویں ترمیم کیس میں ایف بی علی کیس کو درست قرار دیا تھا۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ایک 9 رکنی بینچ فیصلے میں کہہ چکی کہ جرم کا تعلق فوج سے ہو تو فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔ سویلین میں کلبھوشن یادیو جیسے لوگ بھی آتے ہیں۔ آرمی ایکٹ میں سویلین پر دائرہ اختیار پہلے ہی محدود تھا۔ سویلین سے متعلق دفعات کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ابھی بینچ کے سامنے سامنے تفصیلی فیصلہ نہیں آیا ہے۔ کیا تفصیلی فیصلہ دیکھے بغیر ہم فیصلہ دے دیں۔ جسٹس عرفان سعادت نے بھی خواجہ حارث سے دریافت کیا کہ بہتر نہ ہوگا کہ تفصیلی فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔

خواجہ حارث بولے؛ پھر میری درخواست ہو گی کہ ملٹری کسٹڈی میں جو لوگ ہیں ان کا ٹرائل ہونے دیا جائے۔ اس موقع پر سردار لطیف کھوسہ نے حکم امتناع کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جن ججوں نے ملٹری کورٹس فیصلہ دیا وہ بھی اسی سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ ان کا ٹرائل کالعدم قرار دینے والا تفصیلی فیصلہ آیا نہیں تو ٹرائل دوبارہ کیسے جاری رکھا جاسکتا ہے۔

جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ پھر یہ ایپلٹ عدالت بنی کیوں۔سویلین والی دفعات تو کالعدم ہوگئیں۔ وہ دفعات کالعدم  نہ کرتے جو ہمارے بچوں کو شہید کررہے ہیں ان کا کس قانون کے تحت ٹرائل کریں۔ جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ بولے؛ ہمیں جب سنا جائے گا تو ہم ان سوالوں پر تسلی بخش جواب دیں گے۔

سلمان اکرم راجہ کے مطابق سیکشن 2ون ڈی 1967 میں آیا تو اس کے بعد 1973 میں آئین آیا، بنیادی حقوق کو آئین میں تحفظ دیا گیا۔ اس موقع پر جسٹس سردار طارق مسعود بولے؛ ایک تو بنیادی حقوق پتہ نہیں ہمیں کہاں لے کر جائیں گے۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے آغاز کی مشروط اجازت دینے کی استدعا پر جسٹس سردار طارق مسعود بولے؛ ایک قانون کالعدم ہوچکا ہے۔اس میں سے آپ کیسے باتیں نکال نکال کر کہہ رہے کہ ہم اجازت دیں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر بولے؛ اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے۔

قبل ازیں سماعت کے آغاز پر لطیف کھوسہ کی جانب سے بینچ پراعتراض پر جسٹس سردار طارق مسعود نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو نوٹس ہوا ہے۔ جب فریقین کو نوٹس ہوگا تب آپ کا اعتراض دیکھیں گے۔ جس پر لطیف کھوسہ بولے؛ آپ بیٹھ کر کیس سن رہے ہیں اس لیے بول رہا ہوں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیا ہم کھڑے ہوکر کیس سنیں۔ بیٹھ کر ہی مقدمہ سنا جاتا ہے۔ اس موقع پر فیصل صدیقی نے اعتراض کیا کہ حکومت نجی وکلاء کی خدمات حاصل نہیں کر سکتی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نجی وکلاء کی خدمات کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔ مناسب ہوگا پہلے درخواست گزاروں کو سن لیا جائے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے اعتراضات پر بینچ سے الگ ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وکلا جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ پڑھ لیں۔جس کے مطابق کیس سننے سے انکار کا فیصلہ جج کی صوابدید ہے۔انہوں معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو بینچ سے الگ نہیں کرتے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ ہمیں سنے بغیر معطل نہیں کر سکتی۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے بھی روسٹرم پر آکر کہا کہ اعتراض پر فیصلہ پہلے ہونا چاہیے کہ آپ نے بینچ میں بیٹھنا ہے یا نہیں۔ جس پر جسٹس سردار طارق مسعود بولے؛  میں سماعت سے انکار نہیں کر رہا، آگے چلیں۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے اپیل کندہ شہدا فورم کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے انہیں تفصیلی فیصلے کی روشنی میں درخواست میں ترمیم کا کہا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے اٹارنی جنرل کو دلائل شروع کرنے کی ہدایت کی تاہم انہوں نے کہا کہ وہ پہلے وزارت دفاع کی نمائندگی کے لیے خواجہ حارث کو وقت دینا چاہیں گے۔