فوجی عدالتوں میں ٹرائل، سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی

فوجی عدالتوں میں ٹرائل، سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس  میں فُل کورٹ تشکیل دینے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں۔ فل کورٹ تشکیل دینا نا ممکن ہے۔ یہ کیس تعطیلات کے دوران مقرر ہوا۔ تعطیلات کے دوران ججز دستیاب نہیں ہوتے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

دوران سماعت سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ درخواست میں میری 5 معروضات ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عابد زبیری سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ جو بات کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ عابد زبیری نے کہا کہ عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ سپریم کورٹ 1999 میں طے کرچکی ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا۔

عابد زبیری  کا کہنا تھا کہ جسٹس اجمل میاں کے فیصلے کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف فوجی اہلکاروں کا ہوسکتا ہے۔  سپریم کورٹ فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلنز کے ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم درکار ہوگی۔ 21 ویں آئینی ترمیم کیس میں قرار دیا گیا کہ ایسا قانون لاگو نہیں ہو سکتا جس سے بنیادی حقوق معطل ہوں۔

عابد زبیری کا کہنا تھا کہ اصول طے ہے فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہوسکتا، سپریم کورٹ نے یہ اصول 1999 میں لیاقت حسین کیس میں طے کیا، آئین کے آرٹیکل 83اے کے تحت سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا۔

عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 21 ویں آئینی ترمیم فیصلے میں قرار دیا کہ فوجی عدالتیں سویلینز کے ٹرائل کیلئے نہیں ہیں۔ میری درخواست میں آرٹیکل 245 کے تحت افواج طلب کرنے کا معاملہ بھی ہے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ عدالت نے ایف بی علی کیس میں کہا کہ سویلین دفاعی معاملات میں ملوث نکلے تو ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو سکتا ہے۔ جو شہری افواج کی تحویل میں ہیں ان کا ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

عدالت نے سوال کیا کہ آپ کے مطابق سویلنز کو آئینی تحفظ ہے اور فوجی ٹرائل کیلئے دفاع یا افواج کے خلاف تعلق جوڑنا ضروری ہے؟ کیا سویلنز کے فوجی ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ہونا ضروری ہے یا دفاع یا افواج کے خلاف تعلق جوڑنا؟

وکیل عابد زبیری نے موقف اختیار کیا کہ پہلے سویلنز کا فوج یا دفاع کے خلاف تعلق جوڑنا ضروری ہے۔ اگر ملزمان کا فوج یا دفاع سے کوئی تعلق ہے تو پھر فوجی ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ناگزیر ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ اس وقت کے ہیں جب فوجی ٹرائل سے متعلق آئینی ترمیم نہیں ہوئی تھی۔ جس پر درخواست گزار عابد زبیری نے کہا کہ ماضی میں ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کی اجازت مخصوص وقت کیلئے دی گئی تھی۔

درخواست گزار نے کہا کہ عام شہریوں کا آرٹیکل 175 کے مطابق ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں۔ اگر شہری ملکی دفاع کے خلاف کام کریں تو پھر کیا ہوگا؟

عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی یا دفاع کے خلاف شہری ملوث پائے جائیں تو پھر بھی آئینی ترمیم لازمی ہے۔ خصوصی عدالتوں کے قیام کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کی نظر میں کورٹ آف لاء کی کیا تعریف ہے؟

عابد زبیری نے جواب دیا کہ کورٹ آف لاء وہ ہے جہاں ملزمان کو فیئر ٹرائل اور وکیل کا حق ملے۔ ملزمان کو سزاوں کے خلاف ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ کیا ملزمان کو فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف آئینی درخواست دائر کرنے کی اجازت ہوگی؟

سماعت کے دوران جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سویلین کا ٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہو؟ اگر سول عدالتوں میں چارج لگایا جائے تو معاملہ فوجی عدالتوں کو بھیجا جا سکتا ہے؟ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ ٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہونا چاہیے، معلوم نہیں گرفتار افراد پر فوجی عدالتوں میں چارج فریم ہو چکا ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسےہوسکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق دلائل دینے کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں کے وکیل نے ایف بی علی اور 2 مزید فیصلوں پر بات کی، عدالت کے سامنے اکسیویں آئینی ترمیم اور لیاقت حسین کیس کو بھی زیر بحث لایا گیا، لیاقت حسین کیس میں 9 رکنی بنچ تھا۔ میں عدالت کے 23 جون کے حکمنامے کو پڑھوں گا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میری چیف جسٹس پاکستان سے استدعا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں، فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔ حکومت نے بینچ پر اعتراض کیا تو مجھے بہت حیرانی ہوئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روزوفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس میں فُل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔

وفاقی حکومت کا 31 صفحات پرمشتمل جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروایا گیا تھا جس میں فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

حکومت نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی بھی فل  کورٹ بنانے کی رائے دے چکے ہیں۔

وفاقی حکومت نے کہا کہ درخواست گزار ہائی کورٹس سے رجوع کر سکتے ہیں۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے آئینی حقوق سلب نہیں ہوتے۔ فوجی تنصیبات پر حملوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے۔

وفاقی حکومت کا مؤقف تھا کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین سے بھی پہلے کے موجود ہیں۔ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو آج تک چیلنج نہیں کیا گیا۔ ان ایکٹ کے تحت اٹھائے گئے تمام اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں۔

جواب میں مزید  کہا گیاکہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات کو منظم انداز سے نشانہ بنایا گیا۔ حملوں کا مقصد ملکی سیکیورٹی اور فوج کی قدر کم کرنا تھا۔ کم وقت میں ملک بھر میں املاک پر حملے منظم منصوبے کا ثبوت ہے۔ کور کمانڈر ہاؤس، جی ایچ کیو، پی اے ایف بیس پر ساڑھے 5بجے حملہ ہوا، پنجاب میں تشدد کے 62 واقعات میں 250 افراد زخمی ہوئے۔

جواب میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ براہِ راست اس کیس کو نہ سنے کیونکہ اگر سپریم کورٹ نے درخواستیں خارج کردیں تو متاثرہ فریقین کا ہائیکورٹ میں حق متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔